Maktaba Wahhabi

351 - 756
پھر ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفہ‘‘ (۱/۹۸۔۹۹) میں بیان کیا: اس مناسبت سے میں مؤلف کے اس جیسی احادیث کے ذریعے بدعتی توسل پر جہت استدلال کے حوالے سے مختصر بات کرنا چاہتا ہوں، میں کہتا ہوں: سائلین کا اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ ان کی دعائیں قبول فرمائے، اگر یہ روایت صحیح ہے، اور جو اس کے معنی میں ہے، تو اس میں مخلوق کے ذریعے اللہ کے حضور توسل نہیں ہے، بلکہ وہ اس کی طرف اس کی صفات میں سے ایک صفت کے ساتھ توسل ہے، اور وہ اجابت ہے، اور یہ امر مشروع ہے اور محل نزاع سے خارج ہے، منصف کے طور پر غور کریں۔ اور اس کے ذریعے اس حدیث کے آخر پر مؤلف کا قول ساقط ہو جاتا ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احیاء و اموات سائلین کو وسیلہ بنایا۔‘‘ اس لیے کہ ہم کہتے ہیں: یہ کلمات کی تحریف ہے، ہم کہتے ہیں: توسل … اگر حدیث صحیح ہو … سائلین کے حق کے ذریعے، اور تم نے معنی صحیح سمجھ لیا، اور ’’بحق الممشی‘‘ اور وہ اللہ کی طرف سے بندے کے لیے بدلہ و انعام ہے، اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے، تو پھر بدعتی توسل کہاں ہے، جبکہ وہ توسل بالذات ہے!! یہ فوری تردید قارئین کرام کو دو آخری امر کی طرف تنبیہ اور رسالہ مذکورہ کے رد میں کفایت کرتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ انہوں نے (ص۱۶) پر نابینے شخص کی روایت ذکر کی، اس کے مفہوم کا بیان گزر چکا، پھر اس کے بعد اس نے صاحب حاجت شخص کے ساتھ عثمان بن حنیف کے قصے کا ذکر کیا، اس نے ان سے شکایت کی کہ وہ عثمان بن عفان کے پاس جاتا ہے، تو وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے، ابن حنیف نے اسے کہا کہ وہ نابینے شخص کی دعا کے ساتھ دعا کرے۔ وہ عثمان بن عفان کے پاس گیا تو انہوں نے اس کی ضرورت پوری کردی! مؤلف نے اس قصے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے بعد وسیلہ بنانے پر دلیل لی ہے۔ ہمارا جواب دو طرح سے ہے: (۱)… یہ قصہ موقوف ہے، دوسرے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے بعد مطلق طور پر وسیلہ نہیں بنایا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ کے ذریعے وسیلہ طلب کرنے کا معنی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ بنانا، اور یہ (آپ کی وفات کے بعد) نا ممکن ہے جیسا کہ اس کا بیان گزر چکا ہے۔ (۲)… یہ قصہ ابن حنیف سے ثابت نہیں، اور اس کا بیان ہمارے خاص رسالہ ’’التوسل: انواعہ و احکامہ‘‘ (ص۹۲۔ ۹۹) میں ہے، اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔
Flag Counter