یہ ان میں سے ایک ہے!
یہ تمام اس سلسلے کی کڑی ہے جو ہر منصف کے یقین کو مضبوط کرتی ہے کہ شیعی … اپنے استدلالات میں … اس قاعدے پر ہی عمل کرتا ہے: ’’غایت و مقصد وسیلے کو جائز قرار دیتا ہے۔‘‘ اس لیے وہ اس کو اہمیت نہیں دیتا کہ وہ اس چیز سے استدلال کرے جس کی اسناد نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک صحیح پہنچتی ہوں، وہ اپنی غرض کو ثابت کرنا چاہتا ہے، خواہ وہ (روایت) کتنی بھی ضعیف ہو۔
اس کی تدلیسات[1] میں سے ہے: کہ جب حدیث کتب السنہ میں سے کسی کتاب میں مؤلفین میں سے کسی مخرج کی طرف منسوب ہو، وہ حدیث کو اس کتاب کی طرف منسوب کرنا کافی سمجھتا ہے جس نے حدیث نقل کی ہو، وہ جزء اور صفحہ کے بیان کا مکمل اہتمام کرتا ہے … اور یہ مکمل گمراہ کن ہے … اور مؤلفین میں سے جس نے اسے نقل کیا ہے وہ اسے ذکر نہیں کرتا! کیونکہ اگر وہ یہ کہے تو وہ ان لوگوں کی طرح ہو گا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ﴾ (الحشر: ۲)
’’وہ اپنے گھروں کواپنے ہاتھوں اجاڑنے لگے۔‘‘
اس حدیث کو شیعی نے ’’الکنز‘‘ اور ’’منتخب‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے، اور کچھ اضافہ نہیں کیا، اور وہ ان دونوں میں عقیلی کی طرف منسوب ہے! اس شیعی نے اس انتساب سے اعراض کیا، کیونکہ وہ حدیث کے ضعف پر دلالت کرتا ہے، یہ اس لیے کہ اس کی کتاب ’’الضعفاء‘‘ کا یہی مقصود ہے۔‘‘
۱۴:… شیعہ کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر کذب و افتراء اور طعن:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۶۲۹۔۶۳۰)[2] میں حدیث رقم:(۴۹۳۵) کے تحت فرمایا:
وہ حدیث[3] الشیعی کی ’’مراجعات‘‘ (ص: ۱۴۷، ۱۴۸) میں ان احادیث میں سے ہے جسے اس نے حسب عادت صحیح سالم روایت کے طور پر بیان کیا ہے، اور یہ اس کی گمراہی سے موافقت کے لیے ہے!لیکن وہ اس کی اس چیز پر اس کی دلالت سے غافل رہا جو اس کے قول میں موافقت سے متعلق ہے۔
’’مجھ سے پہلے انبیاء نے اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کا وارث نہیں بنایا۔‘‘ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی
|