Maktaba Wahhabi

310 - 756
’’اور یہ حدیث [1] اگرچہ اس میں محدثین کی طرف سے کلام ہے، وہ اہل کشف کے ہاں صحیح ہے۔ [2] پس (یہ قول) باطل اور فضول ہے اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا، یہ اس لیے کہ کشف کے طریق سے احادیث کی تصحیح موجودہ تصوف کی بدعت ہے، اوراس پر اعتماد باطل احادیث کی تصحیح کی طرف لے جاتا ہے جن کی کوئی اصل ہی نہیں، اس حدیث کی طرح، کیونکہ کشف۔ اگر صحیح ہو۔ اس کی سب سے اچھی حالت یہ ہے کہ وہ رائے کی طرح ہو، وہ غلط بھی ہو سکتی ہے اور درست بھی، اور یہ تب ہے اگر وہ اس میں خواہش وگمراہی کو داخل نہ کرے، ہم اللہ سے اس سے اور اس کی ہر ناپسندیدہ چیز سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔ محمد بن ادریس القادری نے اپنے رسالے ’’أزالۃ الدھش والولہ عن المتحیر فی صحۃ حدیث: ’’ماء زمزم لما شرب لہ‘‘ (ص۱۲۴) میں بیان کیا: اور عارف اکبر [3] نے ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں بیان کیا: دارقطنی نے جابر کی روایت سے نقل کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے اس مقصد کے لیے ہے۔‘‘ یہ حدیث ہمارے ہاں ذوق کے ساتھ صحیح ہے… ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے مصدر مذکور (ص۱۲۴) کے حاشیے میں بیان کیا: میں نے کہا: احادیث کی تصحیح و تضعیف میں علماء شریعت کے نزدیک ذوق کی کوئی حیثیت نہیں، اس میں توعلم حدیث کے قواعد اور راویوں کے احوال کی معرفت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا کہ ان کا اس پراتفاق ہے کہ ان کے نزدیک حکم شرعی صرف ذوق ہی سے ثابت نہیں ہوتا، حکم شرعی جس سے ثابت ہوتا ہے وہ تو حدیث ہے جب حکم شرعی ذوق سے ثابت نہیں ہوتا تو پھر اس سے حدیث کس طرح ثابت ہوسکتی ہے؟ اسی طرح تجربہ اور کشف کے بارے میں کہا جائے گا۔ ۱۸:… بعض صوفیاء کا قول:’’تمہارا اس، یعنی: اللہ تعالیٰ، سے سوال کرنا اس کے لیے اتہام ہے‘‘[4]: ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حدیث: ’’حسبی من سؤالی علمہ بحالی‘‘ اس کا میرے حال سے باخبر ہونا میرے سوال سے مجھے کافی ہے‘‘ رقم (۲۱) ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۷۵) کے تحت بیان کیا اور اس پر حکم لگایا کہ مرفوعا اس کی کوئی اصل نہیں، بلکہ وہ اسرائیلیات میں سے ہے:
Flag Counter