روایت کے مطابق:
’’ہماری میراث نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔‘‘
اور یہ اسی ضمن میں سے ہے جس وجہ سے شیعہ لوگ صدیق رضی اللہ عنہ پرالزام لگاتے ہیں، اور انہوں نے ان کے متعلق اپنی خواہشات اور اپنی گمراہیوں کے مطابق طعن کیا! کیونکہ انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وارث نہ بنایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک اور جماعت نے اسے روایت کیا! جیسے: عمر، عثمان، سعد، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور عائشہ وغیرہم، ’’الصحیحۃ‘‘ (۵/۲۰۳۸) دیکھیں، وہ امر جو شیعہ کے کذب اور ان کی جہالت پر دلالت کرتا ہے، ان میں پیش پیش ابن المطہر الحلی ہے، اس نے اپنی کتاب ’’منہاج‘‘ (ص۳۵) میں بیان کیا:
’’ابو بکر کا اس حدیث میں تفرد ہے!‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’منہاج السنۃ‘‘ (۲/۱۵۷۔ ۱۶۵) میں اس پر بہترین رد کیا ہے اور بڑی تفصیل سے آٹھ بڑے صفحات پر مشتمل جواب لکھا ہے … جزاہ اللہ خیرا… جو شخص شیعہ کے اکاذیب و ضلالات پر مزید حقیقی معرفت چاہتا ہے وہ اس کا مطالعہ کرے۔
اس میں سے میں نے کلینی کو اس کی کتاب ’’الکافی‘‘ میں دیکھا … اسے شیعہ وہ مقام عطا کرتے ہیں جو ہمارے ہاں صحیح بخاری کا ہے … اس نے اس (الکافی) میں اپنی اسناد (۱/۳۲) سے ابو عبداللہ (جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ ) سے روایت کیا، انہوں نے کہا:
’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں، وہ میراث میں کوئی درہم چھوڑتے ہیں نہ کوئی دینار، انہوں نے میراث میں اپنی احادیث چھوڑی ہیں، پس جس نے ان میں سے کچھ حاصل کر لیا، تو اس نے وافر حصہ حاصل کر لیا۔‘‘
یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی روایت کی تائید کرتی ہے، اور ان (ابو بکر رضی اللہ عنہ ) پر ان کی نا انصافی کو واضح کرتی ہے جو کہ پہلے بیان ہوئی۔
٭… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سب سے بہتر ہونے کے متعلق بحث و مباحثہ:
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/ ۶۶۰) میں حدیث رقم (۴۹۵۱)[1] کے تحت بیان کیا۔
اور ابن عمر کی اس روایت[2] میں جس پر شیعہ یقین نہیں رکھتے، اور وہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں
|