Maktaba Wahhabi

104 - 756
’’القول البدیع فی فضل الصلوۃ علی الحبیب الشفیع‘‘ (ص ۱۹۵۔ طبع الہند) کے آخر پر النووی سے نقل کرنے کے بعد بیان کیا، انہوں نے فرمایا: ’’محدثین اور فقہاء اور دیگر علماء نے کہا: ’’فضائل اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف روایت پر عمل کرنا جائز اور مستحب ہے، بشرطیکہ وہ موضوع نہ ہو، رہے احکام جیسا کہ حلال و حرام، خرید وفروخت اور نکاح و طلاق وغیرہ تو ان میں صحیح یا حسن روایت پر ہی عمل کیا جائے گا، مگر یہ کہ اس میں سے کس چیز میں احتیاط ہو۔‘‘ ابن العربی المالکی سے ہے کہ انہوں نے اس بارے میں مخالفت کی ہے، انہوں نے فرمایا: ’’ضعیف روایت پر کسی طور پر عمل نہیں کیا جائے گا۔‘‘ حافظ سخاوی نے فرمایا: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک عمل کے لیے شرائط[1] میں نے شیخ رحمہ اللہ کو کئی بار فرماتے ہوئے سنا اور انہوں نے میرے لیے اپنے ہاتھ سے لکھا: ضعیف روایت پر عمل کرنے کی تین شرائط ہیں: اوّل…: اس پر اتفاق ہے کہ وہ ضعف شدید نہ ہو، پس جو شخص جھوٹا اور متہم بالکذب ہو اور جس کی غلطی بہت بری ہو اور وہ (اسے روایت کرنے میں) اکیلا ہو تو وہ خارج ہوجائے گی۔ دوم …: یہ کہ وہ کسی عمومی بنیاد کے تحت آتی ہو، وہ خارج ہوجائے گی جو اس طرح اختراع کی گئی ہو کہ اس کی کوئی اصل نہ ہو۔ سوم …: عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔ تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا نہیں وہ آپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا: آخری دو شرطیں ابن عبد السلام اور ان کے رفیق ابن دقیق العید ( رحمہما اللہ ) سے ہیں، جبکہ اوّل پر العلائی نے اتفاق نقل کیا ہے۔ مذکورہ شرائط آگاہی کے حوالے سے اہل علم پر کیا واجب کرتی ہیں میں کہتا ہوں: سمجھ دار عقل مند شخص پر مخفی نہیں رہ سکتا کہ یہ شرائط اہل علم و معرفت پر اس بات کو لازم کرتی ہیں
Flag Counter