Maktaba Wahhabi

720 - 756
حدیث آتی ہے: ’’قُومُوا اِلٰی سَیِّدِکُم‘‘ ’’اپنے سید (سردار) کا استقبال کرو۔‘‘ ۳: ماں باپ کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کے متعلق شرع میں کوئی اصل نہیں ((الادب المفرد)) (ص۳۳۵) رقم (۹۴۷)[1] ٭ عالم کے ہاتھ کو بوسہ دینے کا مسئلہ: فائدے کی تکمیل کے لیے ہم نے سمجھا کہ ہم شیخ کا کلام نقل کریں جس میں وہ عالم کے ہاتھ کو بوسہ دینے کوجائز قرار دیتے ہیں بشرطیکہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے۔ شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۲،۳،رقم(۱۶) میں بیان کیا:جہاں تک ہاتھ چومنے کا تعلق ہے تو اس باب میں احادیث اور آثار بہت زیادہ ہیں، جن کا مجموعہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف سے ثبوت پر دلالت کرتا ہے، ہم عالم کے ہاتھ کو چومنے کوجائز سمجھتے ہیں جب اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں: ۱: اسے اس طرح عادت نہ بنا لیا جائے کہ وہ عالم اپنے ہاتھ کو اپنے شاگردوں کی طرف بڑھانے کی عادت اختیار کر لے اور وہ (شاگرد) اس سے برکت حاصل کرنے کی عادت بنالیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اگر چوما گیا ہے، تو وہ نادر ہی ہے، اور وہ اس طرح نہ تھا، اسے مستقل سنت بنانا جائز نہیں، جیسا کہ وہ فقہی قواعد سے معلوم ہے۔ ۲: یہ عالم کے کسی اور پرتکبر کرنے اور خودپسندی کی طرف دعوت نہ دیتا ہو، جیسا کہ وہ آج بعض مشائخ میں ہے۔ ۳: یہ کہ اس کا نتیجہ یہ نہ نکلے کہ معلوم ومعروف سنت چھوڑ دی جائے، جیسے مصافحہ کی سنت ہے، کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل و قول سے مشروع ہے، اور وہ دو مصافحہ کرنے والوں کے گناہ جھڑنے کا شرعی سبب ہے، جیسا کہ کئی ایک حدیث میں روایت کیا گیا ہے، تو اسے کسی ایسے امر کی وجہ سے ختم کر دینا جائز نہیں جس کے احسن احوال یہ ہیں کہ وہ جائز ہے۔ ۴: بدعی عمامہ: ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ جلد اوّل کی احادیث نمبر (۱۲۷، ۱۲۸، ۱۲۹) میں اور دوسری جلد کی حدیث رقم (۷۱۸) میں بیان کیا، اور وہ احادیث [2] عمامے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں، مگر یہ احادیث متن کے لحاظ سے منکر اور موضوع ہیں، اس لیے کہ ان میں کسی امر کی فضیلت میں اس قدرمبالغہ ہے کہ عقل سلیم اس کی گواہی نہیں دیتی کہ
Flag Counter