’’عالم (غور کرو انہوں نے طالب علم نہیں کہا!) [1] جب تک علماء اس کے حق میں گواہی نہ دیں تو وہ غیر عالم ہی شمار کیا جائے گا حتیٰ کہ اس کے بارے میں کوئی اور گواہی دے، اور وہ اپنی طرف سے جانتا ہو جس کی اس نے اس کے متعلق گواہی دی ہے، ورنہ وہ عالم نہ ہونے کے بارے میں یقین یا شک پر ہے، ان دونوں حالتوں میں پیچھے ہٹنے پر آگے بڑھنے کو ترجیح دینا محض خواہشات کی اتباع ہی سے ہوتا ہے، جب کہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے بارے میں کسی اور سے دریافت کرے اور اس نے یہ نہ کیا، اس کا حق تھا کہ وہ آگے نہ بڑھتا حتیٰ کہ اس کے علاوہ کوئی اور اسے آگے کرتا جبکہ اس نے یہ نہ کیا۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے الشاطبی رحمہ اللہ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
یہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی اس عالم کے لیے نصیحت ہے جس کے بارے میں امکان ہے کہ وہ علم سے کوئی چیز لوگوں کو پیش کرے گا، وہ اسے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ کوئی چیز پیش نہ کرے حتیٰ کہ علماء اس کے حق میں گواہی دیں، اس اندیشے کے پیش نظر کہ وہ گمراہوں میں سے ہو، دیکھو اگر وہ ہمارے اس دور میں اس علم سے متعلق لوگوں کو دیکھتے تو وہ انہیں کیا نصیحت فرماتے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فرماتے: ’’یہ تمھارا ٹھکانہ نہیں کہیں اور جا‘‘، ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟!…
۲۰: بدعتیوں کی علامت ہے کہ وہ اہل اثر کی غیبت و مذمت کرتے ہیں
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۸۱) حدیث (رقم ۲۳) کے تحت الکوثری کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا: اس آدمی کا عجیب معاملہ ہے کہ وہ اپنے علم کی وسعت کے باوجود سنت کے حامیوں اور حدیث کے پیروکاروں کے خلاف مذہبی تعصب رکھتا ہے اور وہ خواہشات سے مغلوب ہوگیا ہے جنھیں وہ ازراہ ظلم حشویہ [2] ہونے کا الزام دیتا ہے۔‘‘[3]
پھر ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۸۱) کے حاشیہ میں حشویہ والی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
میں نے دیکھا ہے کہ امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ ’’اصول السنۃ واعتقاد الدین‘‘ کتابچے کے آخر میں بیان کرتے ہیں:
’’میں نے اپنے والد (اللہ ان سے راضی ہو) کو بیان کرتے ہوئے سنا: بدعتیوں کی علامت اہلِ اثر کی غیبت و مذمت کرنا اور زندیقوں کی علامت اہلِ اثر کو حشویہ کے نام سے موسوم کرنا ہے، وہ (اس
|