Maktaba Wahhabi

478 - 756
’’السنن والمبتدعات‘‘ (۵۱)، ’’المدخل‘‘ (۲/۲۳۹)، ’’الأجوبۃ النافعۃ‘‘ (ص۴۶۔۵۸)، ’’الاجوبۃ النافعۃ‘‘ (۱۱۸/۱۲)۔ جمعہ سے پہلے کی سنت کے مسئلے کی تفصیل ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۴۶۵) میں بیان کیا: بعض متاخرین نے اس حدیث [1] سے جمعہ سے پہلے کی سنت کی نماز کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے، اور یہ استدلال باطل ہے، کیونکہ ’’بخاری‘‘ اور دیگر کتب حدیث میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جمعہ کے دن اذان اوّل، اقامت اور ان دونوں کے درمیان خطبے کے سوا کوئی چیز نہ تھی، جیسا کہ میں نے اسے اپنے رسالے ’’الأجوبۃ النافعۃ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے… شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: جمعہ سے پہلے کی سنتوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جو بھی احادیث وارد ہیں ان میں سے کوئی بھی چیز قطعاً صحیح نہیں، ان میں سے بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں، جیسا کہ زیلعی نے اسے ’’نصب الرایۃ‘‘ (۲/۲۰۶۔۲۰۷) میں اور ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ (۲/۳۴۱) وغیرہ میں بیان کیا ہے… ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۳/۴۵) میں البوصیری کے ’’الزوائد‘‘ (ق ۷۲/۱) کے حوالے سے ان کا قول نقل کیا ہے: ’’…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جمعہ کے دن اذان واقامت کے درمیان نماز ناممکن ہے، کیونکہ ان دونوں (اذان و اقامت) کے درمیان خطبہ تھا، تب ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہ تھی، ہاں عثمان کے زوراء کے مقام پر اذان شروع کرانے کے بعد، ممکن ہے امام کے خطبے کے لیے آنے سے پہلے جمعہ کی سنت پڑھی گئی ہوں۔‘‘ میں نے کہا[2] : یہ مطلق طور پر وارد نہیں کہ عثمان کی اذان اور خطبہ کے درمیان جمعہ کی مزعومہ چار سنتوں کے لیے وقت تھا اور یہ بھی وارد نہیں کہ وہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں انھیں پڑھا کرتے تھے، لہٰذا وہ احتمالِ مذکور باطل ہوا، فرض کریں اگر اس وقت کا وجود ثابت بھی ہوجائے۔ وہ ایک ایسی عبادت شروع کرنے کے جواز پر دلالت نہیں کرتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھی، عثمان رضی اللہ عنہ کا اس اذان کو شروع کرنا اس سے مختلف ہے، کیونکہ وہ مصالح مرسلہ کے باب سے تھا جیسا کہ میں نے اسے اپنے رسالے ’’الأجوبۃ النافعۃ عن أسئلۃ لجنۃ مسجد
Flag Counter