Maktaba Wahhabi

349 - 756
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’التوسل‘‘ (ص۳۰) میں فرمایا: ’’توسل میں ضعیف احادیث کے ذکر کرنے اور اس کے متعلق قول کی تحقیق سے فارغ ہونے کے بعد، بہتر ہو گا کہ ہم ایک روایت ذکر کریں، جسے اس بدعتی توسل کو جائز قرار دینے والے بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں، تا کہ ہم صحت یا ضعف کے حوالے سے اس کا حال بیان کریں، کیا اس کا اس کے ساتھ، جس کی بحث ہم کر رہے ہیں، کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں؟‘‘[1] اسی طرح ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے بدعتی توسل کے مسئلہ پر ’’الضعیفۃ‘‘ جلد اوّل میں بحث کی ہے، اور انہوں نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جو توسل مبتدع کو ظاہر کرتی ہیں، مگر یہ کہ وہ ضعیف معلول ہیں، اور ان کے نمبر یہ ہیں: (۲۲،۲۳،۲۴،۲۵)اورانہوں نے حدیث رقم (۲۲) کے تحت الکوثری کا مناقشہ کیا جو کہ امام شافعی کا ابو حنیفہ کو وسیلہ بنانے کے مسئلہ سے متعلق ہے، اور انہوں نے حدیث کے حوالے سے اس کا رد کیا کیونکہ وہ ایک جھوٹا قصہ ہے، اور اسی طرح انہوں نے اس مسئلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ (ص۱۶۵) میں سے مضبوط نقولات نقل کی ہیں۔ اور انہوں نے اس کے علاوہ بھی بدعتی توسل کو جائز قرار دینے والے کا فقہی اور حدیث کے حوالے سے مناقشہ کیا ہے۔ توسل کے بارے میں ضعیف احادیث کے برے اثرات ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضغیفۃ‘‘ (۱/۹۴۔۹۵) میں فرمایا: وہ برے اثرات جو ان ضعیف احادیث نے توسل کے بارے میں چھوڑے ہیں: کہ انہوں نے امت کے بہت سے افراد کو توسل مشروع سے بدعتی توسل کی طرف پھیر دیا ہے؟ یہ کہ علماء –– میری معلومات کے مطابق –– اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم، یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کاتقرب چاہنے کے استحباب پر متفق ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیے گئے عمل کے ذریعے وہ عمل کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کر سکتا ہے، وہ اپنے اس عمل کو اللہ کے حضور وسیلہ بنا سکتا ہے۔ بدعتی توسل کے بارے میں جو بھی کہا گیا، وہ اس سے خارج نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک مختلف فیہ امر ہے، تو اگر لوگ انصاف کریں تو وہ احتیاط کے پیش نظر اس (بدعتی توسل) سے باز آجائیں، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ((دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَالَا یُرِیْبُکَ)) ’’جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں مبتلا نہ
Flag Counter