۲: پہلے سلام میں ’’و برکاتہ‘‘ کا اضافہ سنت ہے بدعت نہیں جیسا کہ ’’مضار الابتداع‘‘
کے مصنف نے وہم ڈالا ہے
’’المشکاۃ‘‘ (۱/۳۰۰)[1]
۳: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک نماز چاشت
مورق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا آپ نماز چاشت پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: عمر؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: ابو بکر؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ انہوں نے کہا: میرا خیال ہے نہیں (آپ نے بھی نہیں پڑھی)
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر صحیح البخاری‘‘ (۱/۳۴۵) رقم (۵۸۱) میں بیان کیا: بلکہ ان سے نماز چاشت کا بدعت ہونا بالجزم ثابت ہے۔
یہ سب اس پر دلالت کرتا ہے کہ ابن عمر کو اس سنت کا علم نہ تھا، جبکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فعلاً اور قولاً ثابت ہے۔
’’مختصر صحیح بخاری‘‘ رقم (۸۲۸) میں ہے:
مجاہد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اور عروہ بن زبیر مسجد میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ عبداللہ بن عمر حجرۂ عائشہ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، جبکہ لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا: ہم نے ان سے ان (لوگوں) کی نماز کے متعلق پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: بدعت ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے حدیث رقم (۸۲۸) (۱/۵۱۳) کے تحت تعلیقاً بیان کیا:
نماز چاشت [2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے ثابت سنت ہے، اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے السنن میں سے رہ گئی، اور اسی لیے انہوں نے اس کے متعلق کہا کہ وہ بدعت ہے، اس بات کا احتمال ہے کہ ان کی مراد اس کی پابندی اور اس کا مسجد میں ادا کرنا ہو۔ واللّٰہ اعلم۔
۴: قنوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صفۃ صلاۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘ (ص۱۸۰) میں بیان کیا:
تنبیہ…: نسائی نے قنوت [3] کے آخر میں اضافہ کیا: ’’و صلی اللہ علی النبی الامی‘‘
اس کی اسناد ضعیف ہے، حافظ ابن حجر، قسطلانی اور زرقانی وغیرھم نے اسے ضعیف قرار دیا، اس لیے ہم
|