کے شمائل کے منافی ہیں…‘‘
’’مختصر العلو‘‘ (ص۲۷۸) ترجمۃ رقم (۱۵۸)۔
ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۲۷۸۔ ۲۷۹) میں ذہبی کے سابق کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
تم اس کے متعلق مثالیں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب میں پاؤ گے، ان میں سے ان کا رسالہ بھی ہے جوقضاء و قدر کے متعلق ہے۔
مؤلف نے ’’تذکرۃ‘‘[1] (۳/۳۵۵) میں بیان کیا:
’’میں نے وحدۃ الوجود کے قائل صوفیاء کو دیکھا ’’منازل السائرین‘‘ میں اس کے کلام کو بہت بڑا جانتے ہیں، اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ان کے موافق ہے، ان کے وجد کا ذائقہ چکھنے والا اور ان کے فلسفیانہ تصوف کے متعلق بتانے والا ہے! اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ داعیان سنت میں سے ہے، اور اس کی حمایت آثارسلف کے لیے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’منازل السائرین‘‘ میں کچھ اشیاء محض محو و فناء کے لیے ہیں، اس فنا سے اس کی مراد: وجود کے شہود سے غائب، اور اس نے خارج میں عدم وجود مراد نہیں لی۔
مختصر یہ کتاب اس نمونے سے ہٹ کرایک دوسرا رنگ ہے جس پر تابعین کے صوفیاء نے اتفاق کیا، اور عبادت گزار محدثین نے اسے اختیار کیا، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔‘‘
۱۱:… صوفیاء اور کرامات:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے طحاوی کے ’’عقیدۃ طحاویۃ‘‘ فقرہ (۹۹) (ص۸۴۔۸۵) کے قول: ’’ہم ان کی کرامتوں پریقین رکھتے ہیں، جو ان کی روایات سے ثقہ راویوں سے صحیح ثابت ہیں‘‘[2] پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
مؤلف نے روایات سے جو صحیح ثابت ہے کی تقیید سے بہت اچھا کیا، یہ اس لیے کہ لوگوں (خاص طور پر ان میں سے متاخرین نے کرامات روایت کرنے میں وسعت سے کام لیا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے ان (کرامات) کے نام سے ایسی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں کہ معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی ان کے بطلان میں شک نہیں کرتا، بلکہ بسا اوقات توان میں ربوبیت کے حوالے سے شرک اکبر ہوتا ہے! شعرانی کی کتاب ’’طبقات الاولیاء‘‘ میں اس طرح کی جھوٹی باتیں بہت زیادہ ہیں، ان میں سے کے کسی ولی کا قول ہے: میں نے کسی چیز کے
|