نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خلق کثیر ایمان لائی، آپ سے ہدایت پائی اور جنت میں داخل ہوگئے! اور انہوں نے علی سے ایک بات بھی نہ سنی، اکثر لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، ان سے ہدایت پائی اور انہوں نے علی سے کسی چیزمیں بھی ہدایت و راہنمائی نہ پائی، اسی طرح جب شہر و ملک فتح ہوئے اور وہاں کے باشندے ایمان لائے اور انہو ں نے وہاں موجود صحابہ اور دوسرے لوگوں سے ہدایت حاصل کی۔ جماہیر مسلمانوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہ سنا، تو پھر یہ کہنا کس طرح جائز ہوگا: ’’ہدایت پانے والے تم سے ہدایت پاتے ہیں۔‘‘
پھر چھٹے سبب میں ذکر کیا: آیت کی تفسیر میں صحیح ہے کہ اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پس وہ نذیر (آگاہ کرنے والے، ڈرانے والے) اور ہادی ہیں، رہا علی رضی اللہ عنہ سے اس کی تفسیر کرنا تو یہ باطل ہے! کیونکہ اللہ نے فرمایا: ﴿وَلِکُلِّ قَوْمٍِ ھَادٍ﴾ (الرعد:۷) ’’اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے۔‘‘ اوریہ تقاضا کرتا ہے کہ ان لوگوں کا ہادی اور ہو اور ان کا ہادی کوئی اور ہو، پس ہادی متعدد ہوئے، توعلی کو کس طرح کسی قوم کے اوّل و آخر تمام لوگوں کے لیے ہادی مقرر کیا جا سکتا ہے؟!
۷:… اس کے اس دعوی میں ظاہر جھوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثانی ہیں:
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۵۷۲۔۵۷۳) میں حدیث رقم (۴۹۱۳)[1] کے تحت فرمایا:
تنبیہ:… اس حدیث کے ذریعے عبدالحسین الشیعی نے اپنی چالیس سے زائد احادیث کو ختم کیا، جنہیں اس نے اپنی ’’مراجعات‘‘ میں المراجعہ (۴۷) ’’اربعون حدیثا من السنن المؤیدۃ للنصوص‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا! پھر اسے ان الفاظ سے ختم کیا:
’’ان تمام تائیدی اور حمایتی سنن کی امثال کی تحقیق کی گنجائش نہیں، وہ سب ایک ہی معنی پر دلالت کرتی ہیں! وہ یہ کہ علی اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ثانی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سرداری حاصل تھی وہ آپ کے بعد ان (علی رضی اللہ عنہ ) کو حاصل ہے، پس وہ اس کے معنی میں متواترہ سنن میں سے ہیں، خواہ ان کے الفاظ متواتر نہ ہوں!‘‘
میں اللہ تعالیٰ وحدہ سے مدد طلب کرتے ہوئے بیان کرتا ہوں: اس نے جو چالیس احادیث بیان کی ہیں ان میں صرف چار احادیث ثابت ہیں، ان میں شیخین کی روایت کردہ ایک بھی حدیث نہیں، سوائے علی کی اس روایت کے:
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی: مجھ سے صرف مومن شخص ہی محبت کرے گا اور صرف منافق شخص ہی مجھ سے بغض رکھے گا … (صحیح مسلم)
|