Maktaba Wahhabi

196 - 756
لیکن حقیقی مسلمان کے لیے کافی ہے کہ اسے علم ہو کہ وہ معتزلہ اور خوارج سے ان کی بہت سی گمراہیوں میں موافقت رکھتے ہیں، ان میں سے: ان کا یہ کہنا کہ قرآن اللہ کا کلام مخلوق ہے، لیکن وہ معتزلہ کی طرح صراحت نہیں کرتے۔ لیکن وہ تقیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کلام اللہ، غیر مخلوق‘‘! پھر اس کی نفسیاتی روحانی کلام سے تاویل کرتے ہیں جو کہ سنی نہ جائے، لیکن وہ سمجھ آجائے! تو اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اپنے کلیم موسیٰ علیہ السلام کے صریح قول کو معطل کردیا۔ ﴿فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی﴾ (طٰہٰ: ۱۳) ’’جو وحی کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔‘‘ پس انہوں نے کلام الٰہی کو علم الٰہی قرار دے دیا۔[1] تو انہوں نے صفت کلام کو معطل کردیا، لیکن لپیٹ کر اور چکر دے کر! بالکل اسی طرح جس طرح معتزلہ نے کیا (یا ان میں سے بعض نے) سمع و بصر کی صفت کی تاویل کی، انہوں نے کہا: بے شک اس سے مراد العلم ہے! [2] اس طرح انہوں نے سمع و بصر کی دو صفتوں کو معطل کیا، جس طرح انہوں نے صفت کلام کو معطل قرار دیا، اگر یہ تعطیل نہیں، تو پھر دنیا میں اور کوئی تعطیل نہیں۔ ۶:… اشاعرہ اور ’’عجب و ہنسنے‘‘ کی دو صفتوں کی رضا کے معنی سے تاویل: ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۷۳۸) میں حدیث رقم (۲۸۱۰) کے تحت فرمایا[3]: پس وہ دونوں ’’تعجب کرنا اور ہنسنا‘‘ اہل السنہ کے نزدیک اللہ عزوجل کی دو صفتیں ہیں۔ جبکہ اشاعرہ کا عقیدہ اس کے خلاف ہے، وہ ان دونوں کا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ وہ ان دونوں کی ’’رضا‘‘ کے ساتھ تاویل کرتے ہیں! ۷:… اشاعرہ اور استطاعت عبد: طحاوی نے ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ فقرہ (۸۵) میں فرمایا: ’’وہ استطاعت جس کے ساتھ فعل واجب ہوتا ہے، وہ اس توفیق کے ضمن سے ہے جس کے ساتھ مخلوق کومتصف قرار دینا جائز نہیں، پس وہ فعل کے ساتھ ہے، رہی وہ استطاعت جو صحت و طاقت، تمکن اور سلامت آلات کے حوالے سے ہے تو وہ فعل سے پہلے ہے، اور اسی سے متعلق خطاب ہے، اور وہ اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اللہ کسی جان کو اس کی طاقت کے مطابق ہی مکلف ٹھہراتا ہے۔‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ (ص۸۵) کے اس فقرے پر اپنے تبصرے میں فرمایا:
Flag Counter