کہ وہ صحیح اور ضعیف حدیث کے حوالے سے لوگوں کے لیے دو اہم چیزوں میں فرق کریں۔
اوّل…: صحیح احادیث سے ضعیف احادیث کا فرق، تاکہ ان پر عمل کرنے والے ان کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھیں، ورنہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی آفت میں مبتلا ہوجائیں گے جیسا کہ امام مسلم اور دیگر ائمہ کے کلام میں بیان ہو چکا ہے۔
دوم …: شدید ضعف والی احادیث کو دوسری احادیث سے علیحدہ کرنا، تاکہ وہ ان پر عمل نہ کریں ورنہ وہ آفت مذکورہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔
حق بات جو ہے… اور میں حق بات کرتا ہوں: علمائے حدیث … دوسروں کا تو معاملہ ہی اور ہے … میں سے بہت کم ہیں… جو پہلے فرق کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں، جیسا کہ الحافظ المنذری۔ ان کے تساہل پر پہلے بیان ہوچکا ہے۔ الحافظ ابن حجر العسقلانی اپنی کتب میں، ان کے شاگرد الحافظ السخاوی اپنی کتاب ’’المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتہرۃ علی الالسنۃ‘‘ میں اور ان کے علاوہ دیگر۔ اور ہمارے اس دور میں شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ ’’مسند احمد‘‘ پر اپنی تحقیق و تعلیق میں، آج ان جیسی مثال بہت ہی کم ملتی ہے۔
اور ان میں سے بہت ہی قلیل ہیں جو انتہائی ضعیف احادیث کی دیگر حدیثوں سے فرق کا پورا پورا اہتمام کرتے ہوں، بلکہ میں کسی کو نہیں جانتا کہ اس میدان میں اسے مہارت حاصل ہو، جیسا کہ میں نے اسے ابھی بیان کیا اور وہ میرے نزدیک اس سے زیادہ اہم ہے جو وہ حسن حدیث کو صحیح حدیث سے علیحدہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، حالانکہ اس کے ضمن میں کوئی بڑا فائدہ بھی نہیں، کیونکہ احکام میں ان دونوں (صحیح اور حسن) سے دلیل لی جاتی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ البتہ تعارض و ترجیح کے موقع پر شاذ ونادر ہی ایسے ہوتا ہے کہ حسن کے مقابلے میں صحیح کو ترجیح دی جائے، جس مسئلے پہ ہم بات کررہے ہیں وہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ فضائل میں صرف ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا بہت زیادہ ضعیف پر نہیں، لہٰذا اس کی وضاحت کرنا زیادہ ضروری ہے۔
منذری رحمہ اللہ نے ترغیب و ترہیب میں علماء کے تساہل سے جو ذکر کیا، اور اس کا جواب
اگر کہا جائے کہ ضعیف حدیث کی روایت میں یہ تفصیل اور سختی کس لیے جبکہ المنذری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں ذکر کیا ہے:
’’علماء نے ترغیب و ترہیب کی انواع میں تساہل کو جائز قرار دیا ہے، حتیٰ کہ ان میں سے بہت سوں نے موضوع روایات کو ذکر کیا ہے اور انہوں نے ان کا حال بھی بیان نہیں کیا۔‘‘
میں اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہوں:
|