Maktaba Wahhabi

106 - 756
وہ تساہل جسے انہوں نے جائز قرار دیا ہے دو صورتوں کا احتمال رکھتا ہے: اوّل…: احادیث کو ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کرنا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، ایسا کیوں نہ ہو جبکہ وہ پہلے تمام حفاظ محدثین کا عمل ہے، سنت اور اس کی احادیث کے حفظ کے حوالے سے ان کا پہلا عمل یہ تھا کہ وہ انہیں ان کے شیوخ سے ان کی اسانید کو جمع کرتے تھے، پھر وہ تمام طبقات سے ان کے راویوں کے حالات زندگی کا علم حاصل کرتے تھے۔ جرح و تعدیل کے طرق اور علل الحدیث کی معرفت حاصل کرتے تھے، ان کے متعلق تحقیق سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ صحیح کو ضعیف سے الگ کیا جائے اور انہوں نے اپنے معروف قول ‘‘(معلومات) اکٹھی کر، پھر تفتیش و تحقیق کر‘‘ کے ذریعے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس اصول کے تحت درج ہوتی ہے: ’’جس چیز کے ساتھ واجب کی ادائیگی ہوتی ہو تو وہ (چیز) بھی واجب ہوتی ہے۔‘‘ اس صورت میں چاہیے کہ علماء کے بارے میں منذری کے قول مذکور کو پہلے تو ان کے ساتھ حسن ظن پر محمول کیا جائے گا، دوسری بات یہ ہے کہ یہ وہی ہے جس پر حفاظ کا کلام دلالت کرتا ہے، یہ بات اس کے علاوہ ہے جس پر ان (علماء) کا عمل رہا ہے، اس کا ہم نے تذکرہ کر دیا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب حلال و حرام کا معاملہ آتا ہے تو ہم اسانید کے بارے میں سختی کرتے ہیں اور جب ترغیب و ترہیب کا معاملہ آتا ہے تو ہم اسانید میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔‘‘[1] ہم نے جو کہا یہ اس کے متعلق نص ہے، اور اسی کی مثل ’’علوم الحدیث‘‘ (ص ۱۱۳) میں ابن الصلاح کا قول ہے: ’’اہل الحدیث (محدثین) اور ان کے علاوہ دیگر کے ہاں اسانید میں تساہل جائز ہے اور اسی طرح موضوع کے علاوہ حدیث کی ضعیف انواع کو روایت کرنا جائز ہے۔ اور انہوں نے اللہ کی صفات اور حلال و حرام کے ضمن میں احکام شریعت کے علاوہ اس کا ضعف بیان کرنے کا بھی اہتمام نہیں کیا اور یہ جیسے مواعظ و قصص، فضائل اعمال، ترغیب و ترہیب کے سارے فنون اور باقی تمام چیزیں جو احکام و عقائد سے تعلق نہیں رکھتیں۔‘‘ لہٰذا ان کے قول ’’اسانید میں تساہل‘‘ پر غور کریں، ہم نے جو ذکر کیا اس کا صحیح اور درست ہونا آپ پر واضح ہوجائے گا، اس کا سبب یہ ہے کہ جس نے حدیث کی اسناد ذکر کردیں تو وہ ملامت اور ذمے سے بری ہوگیا، کیونکہ اس نے آپ کے لیے وہ ذریعہ پیش کردیا ہے جس نے اس شخص کو موقع فراہم کردیا جس کے پاس اس فن کا علم ہے
Flag Counter