Maktaba Wahhabi

195 - 756
قدرت و اختیار کو چھین لیا، وہ اللہ کے افعال اور اس کے احکام سے اس (تقدیر) کے حکم و مصالح کو خارج کرتے ہیں۔‘‘ ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کے کلام کے آخر پر (ص۵۲) شرح الطحاویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: وہ اپنے آخری کلام سے اشاعرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے غلو کیا اور اس حکمت کا انکار کیا جس پر ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’شفاء العلیل فی القضاء والقدر والحکمۃ والتعلیل‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس کا مطالعہ کریں، وہ بہت اہم ہے۔ ۴:… اشاعرہ اور ان کی استواء کی استیلاء سے تفسیر: [1] ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۱/۵۰۵)۔ ۵:… اشاعرہ اور صفت کلام: طحاوی نے اپنے ’’عقیدۃ‘‘ فقرہ (۵۶) میں فرمایا: ’’ہم قرآن کے بارے میں بحث و مباحثہ نہیں کرتے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ تمام جہانوں کے پروردگار کا کلام ہے۔‘‘ ہمارے شیخ نے ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ (ص۵۷۔۵۸) پر اپنی شرح میں فرمایا: علم کلام کے باعث اسلام کے بعض فرقے جس بڑے فتنے کا شکار ہوئے وہ یہ کہ: اس نے انھیں اس ایمان سے منحرف کردیا کہ قرآن کریم رب العالمین کا حقیقی طور پر کلام ہے نہ کہ مجازی طور پر۔ رہے معتزلہ جو کہتے ہیں کہ وہ مخلوق ہے، تو اس بارے میں ان کا معاملہ بالکل واضح ہے، لیکن یہاں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو اہل سنت کی طرف نسبت کرتا ہے اور وہ معتزلہ کی، اس قول میں اور اس کے علاوہ انہوں نے اسلام سے اس بارے میں جو بھی انحراف کیا ہے، تردید کرتا ہے، وہ اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں، کیونکہ وہ حقیقت میں خلق قرآن کے عقیدے کے متعلق معتزلہ سے موافقت کرتے ہیں کہ وہ رب العالمین کا قول نہیں، صرف اتنا ہے کہ وہ اسے ظاہر نہیں کرتے اور وہ کلام الٰہی کے لیے اپنی تفسیر کے پیچھے چھپتے ہیں کہ وہ قدیم نفسیاتی روحانی کلام ہے جو کہ کسی فرشتے اور کسی رسول سے نہیں سنا گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام نہیں فرماتا، اس لیے کہ وہ تو ازل سے کلام فرمارہا ہے۔[2] ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۶۔۷) ط: المعارف میں فرمایا:
Flag Counter