’’السنن‘‘ (۱۱/،۶۵)، ’’احکام الجنائز‘‘ (۳۲/۱۲۴)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۴/۱۲۴)۔
۱۲۵: میّت کے لیے غلام آزاد کرنا:
’’السنن، (۱۱،۶۵)،[1] ’’احکام الجنائز‘‘ (۳۲۲/۱۲۵)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۴/۱۲۵)۔
۱۲۶: میّت کے لیے قرآن خوانی اور اس کی قبر کے پاس ختم قرآن:
’’سفر السعادۃ‘‘ (۵۷)، ’’المدخل‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷)، ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۲/۱۲۶)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۴/۱۲۶)۔
قبروں کے پاس قرآن خوانی کے مسئلے کی تفصیل:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۱۲۸) میں حدیث رقم (۵۰) کے تحت بیان کیا:
’’…السنۃ الصحیحۃ میں ایسی کوئی چیز نہیں جو قبروں کے پاس قراء ت قرآن کے استحباب پر دلالت کرتی ہو، بلکہ وہ تو صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ قبروں کی زیارت کے وقت انھیں سلام کہنا اور آخرت کو یاد کرنا مشروع ہے، سلف صالح رضی اللہ عنہم کا یہی عمل رہا ہے، پس وہاں قرآن خوانی مکروہ بدعت ہے، جیسا کہ علماء متقدمین کی ایک جماعت نے اس کی صراحت کی ہے؛ ان میں سے ابوحنیفہ، مالک اور ایک روایت میں احمد، جیسا کہ زبیدی کی ’’شرح الإحیاء‘‘ (۲/۲۸۵) میں ہے، انہوں نے کہا: ’’یہ سنت میں وارد نہیں، محمد بن الحسن اور احمد نے ایک روایت میں کہا: یہ مکروہ نہیں، اس لیے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ انھیں دفن کرتے وقت سورۂ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔‘‘
میں نے کہا: ابن عمر سے اس اثر کی ان تک سند صحیح نہیں، اگر صحیح بھی ہو، تو یہ صرف دفن کے وقت قراء ت کرنے پر دلالت کرتا ہے، مطلق طور پر نہیں، جیسا کہ وہ ظاہر ہے۔
اے مسلم! تم پر لازم ہے کہ سنت کی پابندی کرو اور بدعت سے اجتناب کرو، خواہ لوگ اسے اچھا سمجھیں، کیونکہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’أحکام الجنائز‘‘ (۲۴۱۔۲۴۵) میں اس مسئلے کو بڑی ہی تفصیل سے بیان کیا
|