Maktaba Wahhabi

601 - 756
قبروں کے پاس چراغاں کرنے کے مسئلے کی تفصیل ہمارے شیخ رحمہما اللہ نے ’’احکام الجنائز‘‘ (ص ۲۹۴- ۲۹۵) مسئلہ رقم (۱۲۵) کے تحت بیان کیا۔ درج ذیل امور قبروں کے پاس حرام ہیں: قبروں کے پاس چراغ جلانا: متعدد امور اس پر دلیل ہیں: اوّل: اس کا بدعت محدثہ ہونا جسے سلف صالحین نہیں پہچانتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ‘‘ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔‘‘ (اسے نسائی نے اور ابن خزیمہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں صحیح سند سے روایت کیا ہے) دوم: اس میں مال کا ضیاع ہے، جس کی ممانعت نص سے ثابت ہے جیسا کہ مسئلہ (۴۲ص ۶۴) میں گزر چکا ہے۔ سوم: اس میں آتش پرست مجوسیوں سے مشابہت ہے، ابن حجر الفقیہ نے ’’الزواجر‘‘ (۱/۱۳۴) میں فرمایا: ’’ہمارے اصحاب (اہل علم) نے قبر پر چراغاں کرنے کی حرمت کی صراحت کی ہے، خواہ وہ کچھ وقت کے لیے ہو، اس لحاظ سے کہ اس سے مقیم (مردے) کو کوئی فائدہ ہے نہ وہاں جانے والے کو، اور انہوں نے اسے اسراف، مال کے ضیاع اور مجوس سے مشابہت اختیار کرنے سے تعبیر کیا ہے، اور اس میں کوئی بعید نہیں کہ وہ کبیرہ گناہ ہو۔‘‘ میں نے کہا: انہوں نے جو تعلیل کی اس کے ساتھ اضافی طور پر ہماری پہلی دلیل نقل نہیں کی، حالانکہ وہ بھی ایک دلیل ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ قوی دلیل ہو، کیونکہ جو لوگ قبروں پر چراغاں کرتے ہیں وہ اس سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا قصد کرتے ہیں، وہ صرف قبر والے یا زائر پر روشنی کرنے کا قصد نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ انہیں دوپہر کے وقت سورج کی روشنی میں بھی جلائے رکھتے ہیں، اس لیے وہ گمراہ کن بدعت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اس مشہور حدیث سے کیوں نہیں استدلال کیا جسے ’’اصحاب السنن، ودیگر نے ابن عباس سے روایت کیا ہے: (( لَعَنَ اللّٰہُ زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ، وَالْمَتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ۔)) ’’اللہ قبروںـ کی زیارت کرنے والیوں، ان پر مساجد بنانے اور وہاں چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائے۔‘‘ اس پر میرا جواب : ’’یہ حدیث اپنی شہرت کے باوجود ضعیف الاسناد ہے، وہ قابل حجت نہیں، اگرچہ بہت سے مصنّفین نے تساہل سے کام لیا ہے اور انہوں نے اسے اس باب میں نقل کیا ہے، اور اس کی علت بیان نہیں کی، جیسا
Flag Counter