۵: استواء [1] کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے
عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابوالعز حنفی رحمہ اللہ نے نقل کیا کہ جب امام مالک رحمہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف:۵۴) وغیرھا کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’استواء معلوم ہے، جبکہ کیفیت مجہول ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’شرح العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ از ابن ابوالعز الحنفی (ص۱۲۴) کے حاشیے میں فرمایا، اس کی نص یہ ہے:
مؤلف نے امام مالک رحمہ اللہ کے جواب کے صرف اسی حصے پر اکتفا کیا، مکمل یہ ہے: ’’اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ یعنی استواء کی کیفیت کے بارے میں، اور ان کا کہنا: ’’معلوم‘‘ اور یہ امام مالک رحمہ اللہ [2] کے جواب میں ثابت ہے اور رہا وہ جس کے بعض بدعتی دل دادہ ہیں کہ وہ لفظ ’’مذکور‘‘ ہے تو اس کی کوئی بنیاد نہیں، جیسا کہ میں نے اسے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۱۴۲) میں بیان کیا ہے۔‘‘
ہمارے شیخ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۴۸۔۴۹) کے مقدمے میں فرمایا:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’التدمریۃ‘‘ (ص۲۹ طبع المکتب الاسلامی) میں فرمایا:
’’صفات کے بارے میں قول` ذات کے بارے میں قول کی طرح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی ذات ہے کہ اس کی طرح کوئی چیز نہیں، اس کی ذات میں نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں، پس جب اس کی ذات حقیقت ہے وہ کسی اور ذات کے مشابہ نہیں، پس ذات صفات حقیقی سے متصف ہے وہ صفات کے مشابہ نہیں۔‘‘
جب سائل کہے: وہ عرش پر کس طرح مستوی ہوا؟
|