Maktaba Wahhabi

165 - 756
اس کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جس طرح ربیعہ اور امام مالک، اللہ ان سے راضی ہو، وغیرہما نے دیا: ’’استواء معلوم ہے، کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس (کی کیفیت) کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ کیونکہ وہ ایسی چیز کے بارے میں سوال ہے جسے کوئی بشر نہیں جانتا اور اس سے جواب ملنا ممکن نہیں۔ اور اسی طرح جب کہا جائے: ہمارا رب آسمان دنیا کی طرف کس طرح نزول فرماتا ہے؟ اسے جواب دیا جائے گا: وہ (رب تعالیٰ) کس طرح کا ہے؟ پس جب اس نے کہا: میں اس کی کیفیت نہیں جانتا، اسے کہا جائے گا، ہم اس کے نزول کی کیفیت نہیں جانتے، صفت کی کیفیت کے متعلق علم موصوف کی کیفیت کے متعلق علم کو لازم کرتا ہے، وہ اس کی فرع ہے اور اس کے تابع ہے، تم کس طرح مجھ سے اس کے سمع و بصر، اس کے کلام کرنے اور اس کے استواء و نزول کے بارے میں سوال کرتے ہو جبکہ تم اس کی ذات کی کیفیت کے متعلق نہیں جانتے؟ اور جب تم اقرار کرو کہ نفس امر میں اس کی ثابت شدہ حقیقت صفاتِ کمال کو واجب کرتی ہے، کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہوسکتی، اس کا سمع و بصر، اس کا کلام و نزول اور اس کا استواء بذاتِ خود ثابت ہے، وہ ایسی صفات کمال سے متصف ہے ان میں مخلوق کا سمع و بصر، ان کا کلام و نزول اور ان کا استواء اس کے مشابہ نہیں ہوسکتا…‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۳۶۔۳۷) کے مقدمے میں فرمایا: ۱: ولید بن مسلم نے بیان کیا: میں نے اوزاعی، مالک بن انس، سفیان ثوری، اور لیث بن سعد سے ان احادیث کے متعلق سوال کیا جو صفات کے بارے میں ہیں تو ان سب نے مجھے جواب دیا: وہ جس طرح آئی ہیں انہیں بلاتفسیر اسی طرح رہنے دو۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: کیفیت کے بغیر۔ ۲: ربیعہ الرأی اور مالک وغیرہما نے فرمایا: استواء غیر مجہول (معلوم) ہے، کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’الفتوی الحمویۃ‘‘ (۱۰۹۔ مطبوعہ السنۃ المحمدیۃ) میں فرمایا: ’’ربیعہ اور مالک رحمہما اللہ کا فرمان: استواء غیر مجہول (معلوم) ہے…‘‘باقیوں کے قول کے مطابق ہے: ’’انھیں اسی طرح بلا کیفیت بیان کرو جس طرح وہ آئی ہیں۔‘‘ انہوں نے کیفیت جاننے کی نفی کی، اور انہوں نے حقیقت صفت کی نفی نہیں کی، اگر لوگ محض لفظ پر ایمان لے آئیں اور اس کا معنی نہ سمجھیں بلکہ اس کا معنی اس طرح رہنے دیں جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے تو وہ یوں کہیں: ’’استواء معلوم ہے اور کیفیت سمجھ سے باہر ہے۔‘‘ جب انہوں نے کہا: انھیں اسی طرح بیان کرو جس طرح بلاکیفیت آئی ہیں، کیونکہ اس وقت استواء معلوم نہیں ہوگا، بلکہ وہ حروف تہجی کی طرح مجہول ہے۔‘‘
Flag Counter