اور قراءت میں تدبر کی غرض حاصل نہیں ہوتی، تو انہوں نے فاتحہ کے بعد ایک طویل سکتے کے متعلق کہہ دیا جس میں مقتدی فاتحہ پڑھ سکے، حالانکہ اس کی شرع میں کوئی اصل نہیں! کیونکہ سکتے والی روایت ضعیف اور مضطرب ہے۔[1] … اس میں یہ طویل سکتہ نہیں!
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۱/۲۵۹) میں حدیث رقم (۸۱۸)[2] کے تحت بیان کیا، وہ حدیث یہ درج ذیل ہے:
سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد کیے، ایک سکتہ جب آپ تکبیر تحریمہ کہتے اور ایک سکتہ جب غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کی قراءت سے فارغ ہوتے۔
انہوں نے کہا: پھر راویوں نے اس کے متن میں اس پر اضطراب کیا ہے،[3] ان میں سے بعض نے دوسرا سکتہ ’’ولا الضالین‘‘ کے بعد قرار دیا ہے، جیسا کہ اس روایت میں ہے، اوربعض نے اسے ساری قراءت سے فارغ ہو کر رکوع سے پہلے قرار دیا ہے، جیسا کہ ابوداؤد کی روایت میں ہے، اور وہ ہمارے نزدیک زیادہ راجح ہے۔ اور ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ نے اسی کو ہی صحیح قرار دیا ہے، میں نے اس کی ’’التعلیقات الجیاد علی زاد المعاد‘‘ اور ’’ضعیف السنن‘‘ (۱۳۵۔ ۱۳۸) میں تحقیق کی ہے۔
اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ فاتحہ کے بعد امام کے اتنی دیر سکوت اختیار کرنے کہ اس میں مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ سکے، اس کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں،جیسا کہ بعض متاخرین اس کے متعلق کہتے ہیں۔
۴… رکوع میں قراءت قرآن
’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۲۴)
۵… رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا[4]
ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’صفۃ الصلاۃ‘‘ (۱۳۸۔ ۱۳۹) میں بیان فرمایا:
تنبیہ:…بے شک اس حدیث [5] سے مراد بالکل واضح ہے، وہ اس قیام میں اطمینان ہے،رہا ہمارے
|