اور انواع، سے متعلق کوئی حدیث روایت کی جائے اور ہمیں معلوم نہ ہو کہ وہ موضوع ہے، تو اسے اس معنی میں روایت کرنا اور اس پر عمل کرنا جائز ہے کہ دل اس ثواب کی امید رکھتا ہے، یا اس سزا سے ڈرتا ہے، جیسے کوئی آدمی جانتا ہے کہ تجارت نفع دیتی ہے، لیکن اسے خبر ملے کہ وہ بہت زیادہ نفع دیتی ہے، تو اس نے اگر سچ کہا تو اسے فائدہ ہوا، اور اگر جھوٹ بولا تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
ضعیف حدیث پر اس کی شرط کے ساتھ عمل کی مثال
اس کی مثال: محض اسرائیلی روایات، خوابوں، سلف اور علماء کے اقوال، علماء کے واقعات اور اس طرح کے دیگر واقعات کے ساتھ ترغیب و ترہیب محض جن کے ساتھ حکم شرعی کا اثبات جائز ہے نہ استحباب اور نہ ہی کچھ اور، جائز ہے کہ اسے ترغیب و ترہیب نیز امید دلانے اور ڈرانے کے لیے ذکر کیا جائے، پس شرعی دلائل سے اس کا حسن و قبح معلوم ہوا، کیونکہ یہ نفع پہنچاتا ہے نہ نقصان، خواہ وہ نفس امر میں حق ہو یا باطل، تو جب معلوم ہوجائے کہ وہ باطل اور موضوع ہے تو پھر اس کی طرف دیکھنا جائز نہیں، کیونکہ جھوٹ کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاتا، اور جب ثابت ہوجائے کہ وہ صحیح ہے تو اس کے ذریعے احکام ثابت کیے جائیں گے، اور جب دونوں امور کا احتمال ہو تو اس کے صدق کے امکان اور اس کے کذب کے عدم نقصان کے پیش نظر اسے روایت کیا جائے گا اور امام احمد نے جو کہا ہے کہ ’’جب ترغیب و ترہیب کا معاملہ آیا ہم نے اسانید میں تساہل سے کام لیا۔‘‘ اس کا معنی یہ ہے کہ ہم اس بارے میں ان اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں، اگرچہ وہ ایسے ثقات سے مروی نہ ہوں جو قابل حجت ہوں، اور اسی طرح جس نے یہ کہا: ’’فضائل اعمال میں ان پر عمل کیا جائے گا‘‘، ان پر عمل سے مراد صرف وہ عمل مراد ہے جو اعمال صالحہ میں سے ہو، جیسے تلاوت و ذکر، اور جن اعمال سیۂ سے متعلق کراہت ذکر کی گئی ہے ان سے اجتناب کیا جائے گا۔
اس کی مثال صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمرو سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
((بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْآیَۃً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔)) [1]
’’میری طرف سے پہنچادو خواہ ایک آیت ہو اور بنی اسرائیل سے روایت کرو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح حدیث میں یہ فرمان بھی ہے:
|