عادات کی بدعات
۱: خشوع کی نیت سے سر ننگا رکھنے کااستحباب[1]
یہ دین میں ایک بدعی حکم ہے اس پر رائے کے سوا کوئی دلیل نہیں، اگر وہ حق ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بجالاتے، اور اگر آپ وہ عمل کرتے تو وہ آپ سے منقول ہوتا، اور جب وہ آپ سے منقول نہیں تو اس نے دلالت کی کہ وہ ایک بدعت ہے لہٰذا اس سے بچیں۔
’’تمام المنۃ‘‘ (۱۶۶)۔
۲: بدعی القاب، جیسے: افندی (مسٹر)، بیگ، پاشا اور مسیو …
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۱۱۱) کی حدیث رقم (۴۴) میں جس شخص کی اولاد نہ ہو اس کے لیے کنیت رکھنے کی سنت اور اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا:
مسلمانوں … خاص طور پران میں سے عجمی حضرات … نے اس عربی اسلامی سنت کوترک کر دیا ہے، آپ ان میں سے کنیت رکھنے والے بہت کم افراد دیکھیں گے، خواہ کسی کی اولاد کی ایک ’’فوج‘‘ ہو، تو جس کی اولاد ہی نہ ہو تو وہ کس طرح رکھے گا؟! اور انہوں نے اس سنت کی جگہ بدعی القاب کو دے دی ہے، مثلاً افندی، بیگ ( Baig )، پاشا، پھر سردار یا الاستاذ وغیرہ، یہ سب القابات اس ضمن سے ہیں جوسارے کے سارے یا ان میں سے کچھ ’’خود کو پاک اور نیک قرار دینے‘‘ کی قبیل سے ہیں جس سے بہت سی احادیث میں منع کیا گیا ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحہ‘‘ (۱/۲۵۷) میں حدیث رقم (۱۳۲) کے تحت بیان کیا:
اس حدیث میں کنیت رکھنے کی مشروعیت ہے خواہ اس کی اولاد نہ ہو، اور یہ ادب اسلامی ہے میری معلومات کے مطابق اس کی دیگر امم میں کوئی نظیر نہیں، پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس پر تمسک اختیار کریں خواہ وہ مرد ہوں خواہ عورتیں، اور وہ عجمیوں کی ان عادات کو ترک کردیں جوان میں سرایت کر گئی ہیں جیسے: بیگ، افندی، پاشا،اور اس طرح جیسے، مسیو، یا سید، سیدہ، اور آنسہ وغیرہ کے القابات، یہ سب اسلام میں دخل اندازی ہے، حنفی فقہاء نے ’’افندی‘‘ کی کراہت واضح کی ہے، اس لیے کہ اس میں تزکیہ ہے، جیسا کہ ’’حاشیہ ابن عابدین‘‘ میں ہے، اور لفظ ’’السید‘‘ کااطلاق صرف اس شخص پر ہوتا ہے جس کی کوئی ولایت و ریاست ہو، اور اس بارے میں
|