لمباکرتا ہے اتنا لمبا کرتا ہے حتی کہ اس کے کھڑے ہونے سے پہلے اس کا سانس ٹوٹ جانے کے قریب ہو جاتا ہے۔ سنت کے عالم کو شک نہیں رہتا کہ یہ بدعات میں سے ہے۔
۸… بعض مذاہب میں قول وارد کہ وہ [1] جب قیام کے زیادہ قریب ہو، تو واپس (قعدہ کی طرف) نہ لوٹے، اور جب وہ بیٹھنے کی حالت کے قریب ہو تو بیٹھ جائے
اس تفصیل کی سنت میں کوئی اصل نہیں، یہ حدیث [2] کے خلاف ہے، تم اس (صحیح حدیث) سے وابستہ ہو جاؤ، اور اسے مضبوطی سے تھام لو، آدمیوں کی آراء کو اپنے نزدیک پھٹکنے نہ دو، کیونکہ جب حدیث آجائے تو رائے اور قیاس باطل ہو جاتا ہے، جب اللہ کی نہر آ جائے نہر معقل باطل ہو جاتی ہے۔ ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۶۳۹) میں یہ رہنمائی کی ہے۔
اور شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۵/۵۸۶) میں بھی حدیث رقم (۲۴۵۷) کے تحت بیان کیا:
فائدہ:… ان کا یہ کہنا: ’’جب وہ سیدھا کھڑا ہو جائے تو نماز جاری رکھے اور (قعدہ میں بیٹھنے کے لیے) واپس نہ آئے۔‘‘ اس میں اس بات کی طرف قوی اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد … جو واجب ہے … اور کی طرف عدمِ رجوع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدھا کھڑا ہونا ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ سیدھا کھڑا نہ ہو تو وہ (تشہد کے لیے) لوٹ آئے، اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں نص ہے:
’’جب امام دو رکعتوں میں کھڑا ہو جائے، تو اگر اسے مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے یاد آجائے تو وہ بیٹھ جائے، [3] اور اگروہ سیدھا کھڑا ہو جائے تو پھر نہ بیٹھے، اور پھر (آخر پر) سہو کے دو سجدے کر لے۔‘‘
وہ حدیث اپنے تمام طرق کے لحاظ سے صحیح ہے، ان میں سے ایک جید ہے، اور وہ ’’الارواء‘‘ (۳۸۸) میں منقول ہے، اور ’’ صحیح ابی داوٗد‘‘ (۹۴۹) میں ہے۔پس جو بعض کتب فقہ میں آیا ہے کہ جب وہ قیام کے قریب تر ہو تو پھر واپس نہ آئے، تو وہ دو حدیثوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ یہ کہ اس کی سنت میں کوئی اصل ہی نہیں۔ لہٰذا اے مسلمان! اپنے دین کے حوالے سے دلیل پر قائم رہ۔
|