Maktaba Wahhabi

198 - 756
اس میں اشاعرہ وغیرہ میں سے تاویل کرنے والوں اور صفات کو معطل ماننے والوں کی تردید ہے، جو کہتے ہیں کہ غضب[1] اور رضا سے نیکی کا ارادہ مراد ہے! کاش مجھے معلوم ہوتا ان کے صفت ارادہ کو تسلیم کرنے اور دو مذکورہ صفتوں کی تاویل کے ذریعے انکار کرنے کے درمیان کیا فرق ہے، اور وہ بھی بندے کو اس سے متصف قرار دینے میں ان دونوں کے مثل ہے؟ انہوں نے ان دونوں کے بارے میں ایسے کیوں نہ کہا جیسے انہوں نے اللہ کے ارادے کے بارے میں کہا: یہ اس ارادے کے مخالف ہے جس سے بندے کو متصف کیا جاتا ہے، اگرچہ ان دونوں میں سے ہر ایک وہ حقیقت ہے جو اس کے موصوف کے مناسب ہے، اس بارے میں شارح رحمہ اللہ نے مفصل بیان کیا ہے اس کا مطالعہ کریں۔[2] ۲… جہمیہ ۱:… جہمیہ اور اللہ تعالیٰ کے اپنے مخلوق پر علو کی نفی، ان کا ’’این اللہ‘‘ (اللہ کہاں ہے؟) والی روایت کو ضعیف قرار دینا، اور کئی اقسام کی بدعات اور ان کا ردّ: ہمارے شیخ الالبانی نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۷/۴۷۰۔۴۷۶) میں فرمایا: جملہ بات یہ ہے کہ (اس مسئلے میں) پیش کردہ احادیث میں سب سے زیادہ حدیث وہ معاویہ [3] کی روایت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور کے محدثین اور فقہاء نے کسی اختلاف کے بغیر اس کی تصحیح پر اتفاق کیا ہے، پانچ محدثین نے، جنھوں نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیا، اسے صحیح قرار دیا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا، اسی طرح امام بیہقی نے ’’الاسماء‘‘ (۴۲۲) میں، امام بغوی نے ’’شرح السنہ‘‘ (۳/۲۳۹) میں، امام ذہبی نے جیسا کہ بیان ہوگا۔ اسے حافظ ابن حجر نے ’’الفتح‘‘ (۱۳/۳۵۹) میں روایت کیا۔ ان تمام ائمہ نے اس حدیث اور اس کی اسناد کی صحت کی صراحت کی ہے، نیز حدیث و فقہ اور تفسیر کے تمام ائمہ نے، جو حدیث سے دلیل لیتے ہیں، اپنی سند میں اختلاف پر ان (مذکورہ بالا) ائمہ سے اتفاق کیا ہے اور یہ وہ ائمہ ہیں جنھوں نے ابواب شریعت کے کسی باب میں اس سے دلیل لی ہے، ضروری ہے کہ صرف اسی روایت سے دلیل لی جائے جو صحیح ہو، جیسے امام مالک نے ’’الموطا‘‘ (۳/۵۔۶) میں، امام شافعی نے
Flag Counter