Maktaba Wahhabi

78 - 756
اس دور میں جبکہ بہت سے لوگ اپنے دین میں بدعت کا شکار ہوچکے ہیں، خاص طور پر ان مسائل میں جو کہ جنازے کے متعلق ہیں، تو پھر یہ واجب ہے کہ مسلمان وصیت کرے کہ اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین سنت کے مطابق کی جائے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان پر عمل ہوسکے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُونَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْنَo﴾ (التحریم:۶) ’’ایمان دارو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (داروغے) ہیں، اور اللہ نے انہیں جو حکم دیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اسے بجالاتے ہیں۔‘‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس کی وصیت کیا کرتے تھے، ہم نے ان سے جو آثار ذکر کیے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں…[1] مذکورہ بالا کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ نے ’’الأذکار‘‘ میں بیان کیا: ’’اس کے لیے تاکیدی طور پر مستحب ہے کہ وہ انہیں جنازے کے متعلق مروجہ بدعات سے بچنے کی وصیت کرے اور وہ اس کے متعلق عہد کی تاکید کرے۔‘‘ ۲۴: ان عبادات کے فضائل جن میں تعداد کی شرط ہے، ان میں اس تعداد کی پابندی کرنا ضروری ہے ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ (۲/۲۶) میں حدیث رقم (۱۱۳۹) جو کہ ہے: ’’ومن طاف أسبوعا یحصیہ، وصلی رکعتین، کان کعدل رقبۃ۔‘‘ ’’جو گن کر طواف کے ساتھ چکر پورے کرے اور دو رکعات ادا کرے تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے: جو شخص بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے صرف سات چکر لگاتا ہے وہ ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا۔ اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ عبادات جن میں تعداد کی شرط ہے ان کی فضیلت یہی ہے کہ ان میں اس تعداد کی پابندی کرنا ضروری ہے، اس میں کسی کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا اس سے آگاہ رہیں۔ ۲۵: وہ عبارت جس کے عمومی حکم پر عمل نہیں ہوتا رہا وہ سلف کی فقہ میں سے نہیں ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ کی تحقیق کے دوران میں حدیث رقم (۲۵۰) کے تحت (ص ۱۳۶ پر) فرمایا، وہ درج ذیل ہے: وہ عبارت جس کے عمومی حکم پر عمل نہیں ہوا وہ سلف کی فقہ میں سے نہیں، کیونکہ ہر بدعت، جسے بعض لوگ
Flag Counter