کتاب مذکور (ص۱۴۹) میں صراحت کی کہ غدیرخم کے دن آیت عصمت، علی بن ابی طالب کی امامت کے بارے میں نازل ہوئی، اس کا اہل السنہ کو اعتراف ہے اور شیعہ کا اتفاق، اس نے اس طرح کیا۔ اللہ اس سے اس کے استحقاق کے مطابق معاملہ کرے۔ میں اس معاملے کو ’’الضعیفۃ‘‘ میں مزید بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۵:…رافضہ اور جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کیے بغیر فوت ہوجائے:
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۵۲۵) رقم (۳۵۰) اور ’’الضعیفۃ‘‘ (۵/۸۷۔۸۸) رقم (۲۰۶۹)[1] میں درج ذیل حدیث نقل کی:
(( مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔))
’’جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر فوت ہو جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘
پھر انہوں نے اس پر علمی گرفت کرتے ہوئے فرمایا: ان الفاظ کے ساتھ اس کی کوئی اصل نہیں۔ شیخ ابن تیمیہ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نہیں فرمایا، معروف صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے حق میں کوئی حجت نہیں ہو گی، اور جس نے اس حال میں وفات پائی کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو۔ تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘
امام ذہبی نے اسے ’’مختصر منہاج السنۃ‘‘ (ص ۲۸) میں برقرار رکھا ہے، اور وہ دونوں ہمارے لیے بطور دلیل کافی ہیں۔
میں نے اس حدیث کو شیعہ کی بعض کتب میں دیکھا، پھر قادیانیوں کی بعض کتابوں میں، وہ اس سے اپنے دجال مرزا غلام احمد، جس نے نبی ہونے کا دعوی کیا‘ پر ایمان لانے کے وجوب پراستدلال کرتے ہیں، اگر یہ حدیث صحیح ہو تو پھر بھی ان کے زعم و خیال کی طرف اس میں ادنی سا بھی اشارہ نہیں، اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ مسلمانوں پرواجب ہے کہ وہ ایک امام بنائیں اور اس کی بیعت کریں، اور یہ حق ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث سے اس کی رہنمائی ملتی ہے۔
پھرمیں نے اس حدیث کو شیعہ کے عالم الکلینی کی کتاب ’’الاصول من الکافی‘‘ میں دیکھا، اس نے (۱/۳۷۷) اسے محمد بن عبدالجبار عن صفوان، عن الفضیل، عن الحارث بن المغیرۃ عن ابی عبداللہ کی سند سے مرفوعا روایت کیا۔
|