میں [1] نے کہا: یہ نماز بدعت ہے، سلف نے اسے نہیں پڑھا، اور ان کے امام سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ وخیر الہدی ہدی محمد: ’’اور بہترین راستہ محمد کا راستہ ہے۔‘‘
’’الصحیحۃ‘‘ (۵/۴۳۶)
۸۔ طواف پر قیاس کرتے ہوئے صفا مروہ کے درمیان سعی کے بعد نماز پڑھنا:
’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۴۵)، ’’حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘ (۱۲۱/۶۷)، ’’المناسک‘‘ (۵۴/۶۹)، ’’السلسلۃ الضعیفۃ‘‘[2] (۲/۳۲۸، رقم:۹۲۸)
۹۔ رجب کے پہلے جمعہ کی نماز:
’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۴۴)
۱۰۔ ایک ضعیف روایت کے مطابق بارہ رکعتوں کی نماز جو کہ تجربے پر قائم ہے:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ضعیف الترغیب والترہیب‘‘ (۱/۲۱۶۔۲۱۷) میں حدیث [3] رقم (۴۱۸) کے تحت حاکم کے اس قول کے تحت بیان کیا: احمد بن حرب نے بیان کیا: میں نے اس کا تجربہ کیا تو میں نے اسے حق پایا، ابراہیم بن علی الدبیلی نے بیان کیا: میں نے اس کا تجربہ کیا تو میں نے اسے حق پایا اور حاکم نے بیان کیا: ابو زکریا نے ہمیں بیان کیا: میں نے اس کا تجربہ کیا تو میں نے اسے حق پایا اور حاکم نے بیان کیا: میں نے اس کا تجربہ کیا تو اسے حق پایا:
میں نے کہا: نہیں، بلکہ اس طرح کے مسئلہ میں تجربے پر اعتماد کرنا جائز نہیں، شوکانی نے ’’تحفۃ الذاکرین‘‘ (ص۱۴۰) میں مؤلف کا کلام ذکر کرنے کے بعد کتنی خوبصورت بات کی:
’’میں کہتا ہوں: سنت محض تجربہ سے ثابت نہیں ہوتی، کسی چیز کو اس عقیدے سے بجالانے والا کہ وہ سنت ہے، اس کے بدعتی ہونے کی وجہ سے اس (بدعتی کے حکم) سے خارج نہیں ہوگا، اور دعا کا قبول ہونا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ قبول ہونے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کبھی اللہ اس دعا کو قبول فرمالیتا ہے جو مسنون توسل کے بغیر ہو، وہ ارحم الراحمین ہے اور کبھی دعا استدراج کے طور پر قبول ہوجاتی ہے، اس کے باوجود اس بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ وہ حدیث ہے، سنت مطہرہ کے مخالف ہے، سنت میں ثبوت ثابت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا
|