Maktaba Wahhabi

294 - 756
بعض زاہدوں اور صوفیوں کے حوالے سے اس مناسبت سے میں نے پڑھا تو مجھے بڑا تعجب ہوا، میں اس بارے میں بات لمبی نہیں کروں گا، ان کے قصے بہت زیادہ اور بڑے عجیب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک شخص زاد راہ کے بغیر چلہ کشی کے لیے چل نکلا، اس کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ بھوک کی وجہ سے قریب المرگ ہو گیا، اس کو دور سے ایک بستی نظر آئی، وہ وہاں پہنچا، جمعہ کا دن تھا، وہ اپنے زعم میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے نکلا تھا، اس نے اپنے مزعوم توکل کے بھرم کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے مسجد میں اپنے آپ کو ظاہر نہ ہونے دیا اور اپنے آپ کو منبر کے نیچے سمیٹ لیا، تا کہ کسی کو اس کے متعلق پتہ نہ چل سکے، لیکن وہ اپنے دل میں سوچتا تھا (اللہ کرے) کسی کو اس کے متعلق پتہ چل جائے، اس طرح خطیب نے اپنا خطبہ پڑھا، اور اس نے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی! امام خطبے اور نماز سے فارغ ہو گیا، اور لوگ گروہ در گروہ اور تنہا تنہا مسجد کے دروازوں سے نکلنے لگے، حتی کہ اس آدمی (درویش صاحب) نے محسوس کیا کہ مسجد تو لوگوں سے خالی ہونے کو ہے، دروازوں کو تالے لگا دیے جائیں گے اور وہ کچھ کھائے پئے بغیر مسجد میں اکیلا رہ جائے گا، اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ حاضرین کو اپنی موجودگی کا کھانس کر ثبوت دے۔ (وہ کھانسا) تو کچھ لوگوں نے اس کی طرف توجہ کی، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ بھوک و پیاس کی وجہ سے ہڈی بن چکا تھا، انہوں نے اسے پکڑا اور اس کی ضرورت پوری کی۔ انہوں نے اس سے پوچھا: آدمی! تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں اللہ پر توکل کرنے والا درویش ہوں۔ انہوں نے کہا: تم کس طرح کہتے ہو: اللہ پرتوکل کرنے والا، جبکہ تم تو قریب المرگ ہو گئے تھے؟! اگر تم اللہ پر توکل کرنے والے ہوتے تو تم سوال کرتے نہ کھانس کر اپنے بارے میں لوگوں کو مطلع کرتے، حتی کہ تم اپنے گناہ کی وجہ سے مر جاتے! یہ وہ مثال ہے جہاں تک اس جیسی حدیث: ’’قرآن سے جو چاہو جب چاہو حاصل کرو۔‘‘ پہنچاتی ہے۔ خلاصہ: اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔ ۴:… صوفیاء اور دعاء[1] ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب‘‘ (۲/۵۶) میں حدیث رقم (۱۲۰۰) کے تحت بیان کیا: (وہ حدیث درج ذیل ہے)
Flag Counter