Maktaba Wahhabi

293 - 756
ہو سکتا ہے حدیث سے جنگلات اور بے آب و گیاہ علاقے کا سفر مراد ہو جہاں کم ہی ایسے ہوتا ہے کہ مسافر لوگوں سے الگ ہو کر اکیلا سفر کرے، اس میں آج کل کا وہ سفر شامل نہیں جو ان ہموار راستوں پر کیا جاتا ہے جہاں مواصلات ذرائع بہت زیادہ ہیں، واللہ اعلم۔ پھر یہ کہ اس میں ان بعض صوفیوں کے ریاضت اور نفس کی تربیت … جس کا انہیں دعویٰ ہے … کے لیے اکیلے جنگل کی طرف نکل جانے پر صریح ردّ ہے۔ بہت سے اسی اثنا میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں، یا پھر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اس بارے میں ان سے حکایات ذکرکی ہیں، جبکہ بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔ ایک کتابچے ’’ہم پر کس طرح واجب ہوتا ہے کہ ہم قرآن کریم کی تفسیر بیان کریں؟‘‘ میں ہے: سوال(۱):… جناب شیخ! میں نے ایک چھوٹی کتاب میں ایک حدیث پڑھی: ’’قرآن سے جو چاہو، جب چاہو لے لو۔‘‘ ’’الضعیفۃ: ۵۵۷‘‘ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ ہمیں بتائیں جزاکم اللّٰہ خیرا۔ جواب: …یہ حدیث: ’’قرآن سے جو چاہو جب چاہو لے لو۔‘‘ ایک ایسی حدیث ہے جو مشہور ہے، لیکن انتہائی افسوس ہے کہ وہ ان احادیث میں سے ہے جن کی سنت میں کوئی اصل نہیں، اس لیے اسے روایت کرنا اور اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں۔ پھر یہ معنی جو کہ بہت وسیع ہے اسلامی شریعت میں مطلق طور پر صحیح ہے نہ ثابت ہے: ’’قرآن سے جو چاہو جب چاہو لے لو۔‘‘ مثلاً اگر میں اپنے گھر کے درمیانی حصے میں بیٹھ جاؤں اور کوئی کام نہ کروں، اور میں اپنے رب سے رزق طلب کروں کہ وہ اسے آسمان سے مجھ پر نازل فرمائے کیونکہ میں قرآن سے اخذ کرنے والا ہوں! یہ کون کہتا ہے؟! یہ کلام باطل ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ ان سست و کاہل تصوف والوں کا گھڑا ہوا ہو جو اپنی قیام گاہوں میں جنہیں وہ ’’رباطات‘‘ کا نام دیتے ہیں، بیٹھنے اور رہنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں، وہ وہاں رہتے ہیں اور اللہ کے رزق کا انتظار کرتے ہیں کہ لوگوں میں سے کون اسے ان کے پاس لاتا ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مسلمان کی فطرت نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کی بلند ہمتی اور عزت نفس پر تربیت فرمائی، آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: (( اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، فَالْیَدُالْعُلْیَا ھِیَ الْمُنْفِقَۃُ وَالْیَدُ السُّفْلٰی ھِیَ السَّائِلَۃُ۔)) (صحیح بخاری:۱۴۲۹۔ صحیح مسلم:۱۰۳۳) ’’اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے، پس اوپر والا ہاتھ وہ خرچ کرنے والا ہے جبکہ نچلا ہاتھ سوال کرنے (مانگنے) والا ہے۔‘‘
Flag Counter