اور یہ بھی، کہ جب لفظ سے معنی سمجھ نہ آئے تو کیفیت کے علم کی نفی کی ضرورت نہیں ہوتی، کیفیت کے علم کی نفی کی ضرورت تو صرف تب پڑتی ہے جب صفات ثابت کی جائیں۔
اور یہ بھی کہ جو جزوی … یا کلی صفات … کی نفی کرتا ہے اسے ’’بلا کیفیت‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہے: ’’اللہ عرش پر نہیں ہے‘‘ اسے ’’بلاکیفیت‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر حقیقت امر میں سلف کا موقف صفات کی نفی ہوتا تو پھر انہوں نے یوں کیوں کہا: ’’اور بلا کیفیت‘‘؟
اسی طرح ان کا یہ کہنا: ’’انھیں ویسے ہی بیان کرو جس طرح آئی ہیں‘‘ تقاضا کرتا ہے کہ ان کے اسی مفہوم کو باقی رہنے دیا جائے جو دراصل ان کا مفہوم ہے۔ کیونکہ وہ الفاظ کے طور پر آئی ہیں جو معانی کی رہنمائی کرتے ہیں، اگر وہ معانی کی طرف رہنمائی نہ کرتی ہوتیں تو یوں کہنا واجب ہوتا: ’’اس اعتقاد کے ساتھ ان کے الفاظ کا اقرار کرو کہ ان کا مفہوم مراد نہیں یا ان کے الفاظ کا اس اعتقاد کے ساتھ اقرار کرو کہ اللہ کا وہ وصف بیان نہیں کیا جاتا جس کا حقیقت راہ دکھاتی ہے تب ان کا اسی طرح اقرار ہوگا جس طرح آئی ہیں، اور تب یوں نہیں کہا جائے گا: ’’بلاکیفیت‘‘۔ جب اس چیز سے کیفیت کی نفی کی جو ثابت نہیں تو وہ لغو بات ہے۔‘‘
۳: امام خطابی نے فرمایا:
’’صفات کے بارے میں سلف کا موقف ان کا اثبات اور ان کے ظاہری معنی پر ان کا اجراء ہے نیز ان کے بارے میں کیفیت و تشبیہ دینے کی نفی ہے۔‘‘
۴: حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:
’’اہل السنہ کا کتاب و سنت میں وارد صفات کے اقرار و اثبات پر اجماع ہے، وہ انھیں حقیقت پر محمول کرتے ہیں نہ کہ مجاز پر، مگر وہ ان میں سے کسی کی کیفیت بیان نہیں کرتے، رہے جہمیہ، معتزلہ اور خوارج تو وہ سب ان کا انکار کرتے ہیں اور وہ ان میں سے کسی کا حقیقی معنی نہیں لیتے اور وہ کہتے ہیں کہ جس نے ان کا اقرار کیا وہ مشبہہ ہے، اور ان کا اقرار کرنے والے کے نزدیک وہ معبود کی نفی کرنے والے ہیں۔‘‘
۶:یہ کہنا: اللہ ہر جگہ ہے!!
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۳/۳۸) میں حدیث (۱۰۴۶) کے تحت فرمایا:
٭…: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((اَنْ یَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَہُ حَیْثُ کَانَ)) ’’یہ کہ وہ جان لے کہ وہ جہاں بھی ہو اللہ اس کے ساتھ ہے۔‘‘ کے بارے میں امام محمد بن یحییٰ الذہلی نے فرمایا:
’’اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا، جبکہ اللہ عرش پر ہے۔‘‘
|