Maktaba Wahhabi

167 - 756
حافظ الذہبی نے ’’العلو‘‘، جس کی تحقیق اور اختصار [1] میں نے کیا ہے، میں ترجمہ رقم (۷۵) میں اسے ذکر کیا ہے۔ رہا عام لوگوں اور بہت سے خاص لوگوں کا یہ کہنا: اللہ ہر جگہ موجود ہے، یا وہ ہر چیز میں موجود ہے، اور وہ اس سے اس کی ذات کے ساتھ مراد لیتے ہیں، یہ گمراہی ہے، بلکہ وہ وحدۃ الوجود کے موقف سے ماخوذ ہے، جسے غلو کرنے والے صوفی بیان کرتے ہیں، جو خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، ان کا بڑا کہتا ہے: ہر چیز جسے تم اپنی آنکھ سے دیکھتے ہو وہ اللہ ہے! جو وہ بیان کرتے ہیں اللہ اس سے بہت زیادہ بلند ہے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مختصر العلو‘‘[2] (۱۷۔۱۸) کے مفید مقدمے میں فرمایا: ’’اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دو لفظ ’’بذاتہ‘‘[3] (اپنی ذات کے ساتھ) اور ’’بائن‘‘ (جدا) صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں معروف نہ تھے، لیکن جب جہم اور اس کے پیروکاروں نے یہ نئی بات نکالی کہ اللہ ہر جگہ ہے، اس بات کی ضرورت لاحق ہوئی کہ یہ بڑے بڑے ائمہ لفظ ’’بائن‘‘ بیان کریں، بجائے اس کے کہ ان میں سے کوئی اس کا انکار کرے۔‘‘ بالکل اسی طرح قرآن کریم کے بارے میں ان کا کہنا کہ وہ غیر مخلوق ہے، یہ کلمہ بھی وہی ہے جسے صحابہ کرام نہیں جانتے تھے، وہ اس کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے، وہ اس سے زائد کچھ نہیں کہتے تھے، اس کے متعلق اس حد پر ٹھہرنا چاہیے تھا، اگر جہم اور اس جیسے معتزلہ یوں نہ کہتے کہ وہ مخلوق ہے، لیکن جب ان لوگوں نے جھوٹی بات کی تو پھر اہل حق پر واجب ہوا کہ وہ حق بات بیان کریں، اگرچہ وہ ایسے طریقوں اور الفاظ کے ساتھ ہو جو پہلے معروف نہ تھے، امام احمد رحمہ اللہ سے جس وقت ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو قرآن کے بارے میں یہ نہیں کہتے کہ وہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے، کیا ان کے لیے رخصت ہے کہ وہ آدمی کہے: ’’ کلام اللہ‘‘ پھر خاموش ہوجائے؟ اس وقت انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کیوں خاموش رہے؟! اگر لوگ اس (مسئلے) میں مبتلا نہ ہوتے تو اس کے لیے خاموش رہنا کافی تھا، لیکن
Flag Counter