اس جاہل کو دیکھیں کتنی دور نکل گیا اس نے اس معرکے کو اسلام اور فارسیوں کے درمیان قرار دیا، جبکہ وہ مشرکوں اور فارسیوں کے درمیان ہے، اور اس نے ان اشعار کو جو کہ اس معرکہ میں پڑھے گئے مسلمانوں کی خواتین کی طرف منسوب کیا، جبکہ وہ غزوہ احد میں مشرکوں کی خواتین کے تھے، وہ مشرکوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی کا جوش دلاتی تھیں، جیسا کہ وہ کتب سیرت میں مروی ہے!
اس نے دو مختلف واقعات کو خلط ملط کر دیا، اپنی جہالت یا تجاہل عارفانہ کے ذریعے ان دونوں کو اس طرح ملایا کہ اس کی بالکل کوئی اصل نہیں، تا کہ وہ اس سے ان مزعومہ اشعار کے جواز پر دلیل قائم کر سکے، حالانکہ اس میں کوئی دلیل نہیں، اگر مطلقاً ثابت ہو جائے، تب بھی طنطاوی اور ان کے مخالفین کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے متعلق کوئی اختلاف نہیں، بلکہ اختلاف تو اس میں ہے جو اس نے آپ کی مدح کے ساتھ ایسی چیز ملائی ہے جو شرعاً مناسب نہیں، جیسا کہ اس کی طرف اشارۃً بیان ہو چکا، اور اس کے علاوہ بھی اب اس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں، لیکن جس نے کہا: سچ کہا: ’’کسی چیز سے تمہاری محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے۔‘‘[1]
پس ان لوگوں نے نبوی اشعار پسند کیے، پس ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن انہوں نے ان کے ساتھ جو شریعت کے مخالف چیزیں ملالیں، انہوں نے انہیں اندھا بنا دیا۔
’’طلع البدر علینا‘‘کا قصہ
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے عام و خاص بہت زیادہ لوگوں کی زبانوں پر مشہور قصے کو ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۶۳) میں حدیث (۵۹۸) کے تحت نقل کیا۔ ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو خواتین اور بچے بچیاں یہ اشعار پڑھ رہی تھیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ
’’ان پہاڑوں سے جو جنوب میں ہیں چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہوا۔‘‘
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ
’’کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے۔ شکر واجب ہے ہم پر اللہ کا۔‘‘
یہ ضعیف ہے۔ ابو الحسن الخلعی نے اسے ’’الفوائد‘‘ (۵۹/۲) میں روایت کیا، اسی طرح بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ (۲/۲۳۳۔ط) میں فضل ابن حباب سے نقل کیا، انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن محمد بن عائشہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: انہوں نے اسے ذکر کیا۔
|