یہ اسناد ضعیف ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں، لیکن وہ روایت معضل ہے، اس کی اسناد سے تین یا اس سے زائد راوی ساقط ہیں، کیونکہ ابن عائشہ یہ امام احمد کے شیوخ سے ہیں اور انہوں نے اسے نظرانداز کیا، اسی لیے حافظ عراقی نے ’’تخریج الاحیاء‘‘ (۲/۲۴۴) میں اسے معلول قرار دیا۔
پھر بیہقی نے کہا جیسا کہ ’’تاریخ ابن کثیر‘‘ (۵/۲۳) میں ہے:
’’اور ہمارے علماء اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ آمد کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں، ایسا نہیں بلکہ یہ اس وقت پڑھے گئے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پہاڑوں سے جو جنوب میں ہیں تبوک سے تشریف لائے تھے۔‘‘
یہ وہ ہے جسے بیہقی نے علماء سے بیان کیا ہے، ابن الجوزی نے ’’تلبیس إبلیس‘‘ (ص۲۵۱۔ تحقیق میرے دوست الاستاذ خیر الدین وانلی کی ہے) میں اسے جزم کے ساتھ ذکر کیا ہے، لیکن محقق ابن القیم نے اس کا رد کیا
ہے۔ انہوں نے ’’زاد المعاد‘‘ (۳/۱۳) میں بیان کیا:
’’وہ وہم ظاہر ہے: کیونکہ ’’ثنیات الوداع‘‘ تو شام کی جانب ہیں، مکہ سے مدینہ آنے والا انہیں نہیں دیکھ سکتا، جب شام کی طرف رخ ہو تب ہی ان کے پاس سے گزر ہوتا ہے۔‘‘
اس کے باوجود، لوگ اس تحقیق کے خلاف ہی سمجھتے رہے، یہ قصہ سارے کا سارا غیر ثابت ہے [1] جیسا کہ آپ نے دیکھا!
تنبیہ…: غزالی نے اس قصے کو ’’دف اور سروں‘‘ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے، جبکہ اس کی کوئی اصل نہیں جیسا کہ حافظ عراقی نے اپنے ان الفاظ کے ساتھ اس کے لیے اشارہ کیا:
’’اس میں دف اور سروں کا کوئی ذکر نہیں۔‘‘
اس اضافے سے ان میں سے بعض نے دھوکا کھایا، انہوں نے اس (اضافے) کے ساتھ قصہ نقل کیا اور ان اشعار نبویہ کے جواز پر استدلال کیا جو کہ آج معروف ہیں!
اسے کہا جائے گا: ’’پہلے تخت ثابت کرو پھر نقش نگاری کرو۔‘‘! فرض کریں اگر وہ قصہ صحیح بھی ہو! تو بھی اس میں ان کے موقف کی کوئی دلیل نہیں، جیسا کہ حدیث رقم (۵۸۹) میں اس کے لیے اشارہ گزر چکا ہے، اس کے
|