Maktaba Wahhabi

312 - 756
﴿یَعْلَمُ السِّرَّ وَ أَخْفٰی﴾ (طہ:۷) ’’وہ پوشیدہ باتوں کو اور مخفی تر رازوں کو بھی جانتا ہے۔‘‘ یہ (دعا کرنا) تو اس کے حضور اپنی عبودیت، اپنی حاجت اوراس کے لیے اپنی محتاجی کے اظہار کے لیے ہے، جیسا کہ ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۲۲) میں اس کا بیان گزر چکا۔ ۱۹:… یہ کہنا: ’’میں تیری جنت کے شوق کی خاطر روتا ہوں نہ جہنم کے ڈر سے‘‘ فلسفۂ تصوف ہے[1]: ہمارے شیخ۔ قدس اللہ روحہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۴۲۶) میں حدیث رقم (۹۹۸) کے تحت بیان کیا اور اس روایت پر حکم لگایا کہ وہ انتہائی ضعیف ہے: اس حدیث میں جو اس کے قول: ’’میں تیری جنت کے شوق کی خاطر روتا ہوں نہ جہنم کے خوف سے‘‘ کا انکار کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ فلسفہ تصوف ہے، رابعہ عدویہ نے اسے مشہور کیا، اگر وہ اس سے صحیح ہے، انہوں نے ذکر کیا کہ وہ اسے اپنی دعاؤں اور مناجات میں کہا کرتی تھی: ’’رب جی! میں نے تیری جنت کے طمع سے تیری عبادت کی ہے نہ تیری جہنم کی آگ کے خوف سے۔‘‘ یہ کلام ایسے ہی شخص سے صادر ہو سکتا ہے جواللہ تبارک وتعالیٰ کو اس طرح نہیں پہچانتا جیسا کہ اس کی معرفت کا حق ہے۔ وہ اس کی عظمت و جلال اور اس کے جود و کرم (سخاوت) سے واقف نہیں، ورنہ اس کے پاس جو دائمی نعمتیں ہیں وہ ان کے طمع کی وجہ سے اس کی عبادت کرتا، ان میں سے: اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار ہے، اور اس نے جونافرمانوں کافروں کے لیے جہنم اور درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے اس سے ڈرتے ہوئے اس کی عبادت بجالانا، اور اس میں سے ان کواپنے دیدار سے محروم رکھنا جیسا کہ اس نے فرمایا: ﴿کَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ﴾ (المطففین: ۱۵) ’’خبردار! یہ لوگ اس دن اپنے رب کے سامنے آنے سے روک دیے جائیں گے۔‘‘ اسی لیے پیغمبر اللہ کے متعلق حقیقی معرفت رکھتے تھے، وہ اس طرح کے خیالی کلمات کے ذریعے اس سے دعا نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ وہ اس کی جنت کے طمع میں اس کی عبادت کرتے تھے، کیوں نہ ہو جبکہ اس میں اس سے بھی اعلیٰ چیزیں ہیں جسے مومن کا دل دیکھ سکتا ہے؟ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دیدار ہے، اور وہ اس کی جہنم سے ڈرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں، کیوں نہ ہو، یہ اس (خوف) سے ان کے محروم ہونے کو لازم ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے منتخب انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًَا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ﴾ (الانبیاء: ۹۰) ’’وہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور امید وخوف سے ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی سے رہتے تھے۔ اسی لیے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتے تھے، جیسا کہ آپ سے کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
Flag Counter