Maktaba Wahhabi

311 - 756
اس معنی کو اس نے اخذ کیا ہے جس نے حکمت میں طریقہ تصوف پر تصنیف کی تو اس نے کہا: ’’تیرا اس، یعنی: اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا اس کے لیے اتہام ہے!‘‘ یہ بہت بڑی گمراہی ہے! کیا انبیاء صلوات اللہ علیہم نے جس وقت اپنے رب سے مختلف سوال کیے تو انہوں نے اپنے رب کو متہم قرار دیا تھا! پس یہ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں، وہ عرض کرتے ہیں: ﴿رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الـصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَ فْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَـیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّـھُمْ یَشْکُرُوْنَ﴾ (ابراہیم:۳۷) ’’ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے معزز گھر کے قریب چٹیل میدان میں جہاں کھیتی نہیں ہوتی لا بسایا ہے، پروردگار! تا کہ وہ لوگ نماز ادا کریں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو پھلوں سے روزی دے تا کہ وہ تیرا شکر کریں۔‘‘ (آخر آیات تک) وہ سب دعائیں ہیں، کتاب و سنت میں انبیاء کی بے شمار دعائیں ہیں، جبکہ قائل نے جس کی طرف اشارہ ہے وہ اس سے غافل ہے کہ دعا اللہ تعالیٰ کے حضور تضرع والتجاء ہونا ایک عظیم عبادت ہے، اس نے حاجت مسؤلہ سے نظر جھکا لی جائے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلدُّعَائُ ھُوَالْعِبَادَۃُ)) [1] ’’دعا ہی عبادت ہے۔‘‘ ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ(۶/۳۲۶۱) میں حدیث رقم (۲۶۵۴)[2] کے تحت فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراس کی دعا سے تکبر و انکار کرنا اس شخص پر اللہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرتا ہے جو اس سے دعا نہیں کرتا، پس اس حدیث کی شہادت زیر بحث حدیث کے لیے اس کے معنی کے لیے قوی شہادت ہے۔ ان احادیث سے بعض صوفیاء کے نزدیک اپنے اس زعم کی وجہ سے کہ اللہ سے دعا کرنا اللہ کے ساتھ سوء ادب ہے جاہل ہیں یا جاہلانہ طرف اختیار کرتے ہیں! اور وہ اس بارے میں اسرائیلی اثر (روایت) سے متاثر ہیں: ’’اس کو میرے حال کا علم مجھے اس سے سوال کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔‘‘ پس وہ لاعلم رہے کہ بندے کا اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرنا اسے اپنی حاجت بتانے کے باب سے نہیں وہ تو
Flag Counter