ذکر سے متعلق قواعد
اوّل: دلیل کے بغیر مطلق کو مقید اور مقید کو مطلق قرار دینا جائز نہیں
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۲۳) میں فرمایا:
’’جس چیز کو الشارع الحکیم (اللہ تعالیٰ) نے مطلق رکھا ہے اسے مقید کرنا جائز نہیں، جس طرح کسی چیز کو مطلق قرار دینا جائز نہیں جسے اس نے مقید رکھا ہو۔‘‘
دوم: کیا کسی دلیل کے بغیر عبادت [1] میں عام و مطلق نصوص پر تمسک اختیار کرنا جائز ہے؟
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۲۹۔۳۳) میں فرمایا:
ان میں سے بعض نے کسی معین عدد کی تعیین کے بغیر نماز میں اضافے کی ترغیب کے سلسلے میں عام و مطلق دلائل کو اختیار کیا ہے! [2] جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیعہ بن کعب سے فرمایا، انہوں نے آپ سے جنت میں آپ کی مرافقت و ساتھ کی درخواست کی تھی:
(( فَأَعِنِّیْ عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ۔)) [3]
’’کثرت سجود سے میری مدد کرو۔‘‘[4]
جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ’’وہ قیام رمضان میں رغبت رکھتے تھے۔‘‘ اس طرح کی احادیث، جو اپنے اطلاق و عموم کی وجہ سے نماز کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں کہ نمازی جتنی تعداد میں چاہے (رکعتیں) پڑھ سکتا ہے۔
جواب: یہ استدلال انتہائی کمزور ہے، بلکہ وہ ایک شبہہ ہے بیان کرنے کے قابل نہیں جیسا کہ اس سے پہلے
|