تھا!! مطلق پر عمل اس کے اطلاق پر صرف اس میں جائز ہوگا جسے الشارع نے مطلق سے مقید نہیں کیا، ہاں جب الشارع نے کسی مطلق حکم کو کسی قید کے ساتھ مقید کیا تو پھر اس کے ساتھ تقیید واجب ہے، اور مطلق پر اکتفا کیا جائے، جبکہ ہمارا مسئلہ (نماز تراویح) مطلق نوافل میں سے نہیں، کیونکہ وہ ایک ایسی نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک نص کے ساتھ مقید ہے، جیسا کہ اس کا بیان نماز تراویح کے حوالے سے اس فصل کے شروع میں ہوچکا ہے، لہٰذا مطلق اختیار کرتے ہوئے اس شرط کو چھوڑنا جائز نہیں، اور جو کوئی اسے ادا کرے گا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی مخالفت کرتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسانید کے ساتھ منقول ہے، وہ اس (نماز) کی مقدار و کیفیت کے حوالے سے مخالفت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) [1] ’’اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔‘‘ کو بھول جاتا ہے اور ان مطلق نصوص سے دلیل لیتا ہے! مثال کے طور پر جیسے کوئی شخص ظہر کی نماز (فرض) پانچ رکعات اور فجر کی چار سنتیں پڑھتا ہے! اور جیسے کوئی شخص دو رکوع اور کئی سجدے کرتا ہے! تو اس کی خرابی کسی عقل مند شخص پر مخفی نہیں، اسی لیے علامہ شیخ علی محفوظ نے ’’الابداع‘‘ (ص:۲۵) میں مذاہب اربعہ کے علماء کی نصوص نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فعل کو کرنے کا تقاضا ہونے کے باوجود اسے ترک کیا تو اسے ترک کرنا ہی سنت ہے اور اسے بجالانا بدعت مذمومہ ہے، انہوں نے کہا:
’’معلوم ہوا کہ عمومات اختیار کرنا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے اس کا کرنا اور نہ کرنا معلوم نہ ہو تو وہ متشابہات کی پیروی کے زمرے میں آتا ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے، اگر ہم عمومات کا پختہ ارادہ کرلیں اور وضاحت سے صرف نظر کرلیں، تو بدعت کے دروازوں میں سے ایک بہت بڑا دروازہ کھل جائے گا جسے بند کرنا ممکن نہ رہے گا اور دین میں اختراع کسی حد پر نہیں رکے گی، اس بارے مذکورہ مثالوں کے علاوہ مزید چند مزید مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
اوّل…: طبرانی کی روایت میں ہے: ’’الصلاۃ خیر موضوع‘‘ ’’نماز اچھی ’موضوع‘ ہے۔‘‘ اگر ہم اس کے عموم کو اختیار کریں تو پھر صلاۃ الرغائب کس طرح بدعت مذمومہ [2] ہوگی؟ شعبان کی نماز کس طرح بدعت مذمومہ ہوگی جبکہ وہ دونوں حدیث کے عموم میں داخل ہیں؟ جبکہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ وہ دونوں مذموم قبیح بدعتیں ہیں، جس طرح ’’صلاۃ التراویح‘‘ میں بیان ہوگا۔
|