Maktaba Wahhabi

170 - 756
اس کے لیے صحیح حدیث میں کوئی اساس نہیں، جب کہ عبد الرزاق کی روایت کی اسناد مجہول ہیں۔[1] ۹: قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنے کا عقیدہ ’’مختصر العلو‘‘ (ص۳۰) ۱۰: التعطیل[2]، اور وہ: اللہ کی اپنی مخلوق پر صفت علو جو کہ حقیقی علو ہے اور وہ ویسے ہی ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے، کا انکار ہے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۳۰) ۱۱: ان کا کہنا: اللہ بلا مکان موجود ہے… اللہ ان کے اس قول سے پاک و برتر ہے ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۷/۴۷۷) میں فرمایا: اور وہ (یعنی: السقاف) مراد لیتا ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) عرش کے اوپر نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی آیات میں بتایا، اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا۔ ۱۲: استواء کی استیلاء کے ساتھ تفسیر کرنا بدعت ہے ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے کتاب ’’مختصر العلو‘‘ کے مقدمے میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں بدعتیوں کی تاویل پر دو مثالیں ذکر کی ہیں، بدعتی لوگ تاویل کی ’برکت‘ سے کسی دلیل کے بغیر کس طرح ان کی تاویل کرنے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے (ص۲۵۔۲۶)فرمایا: رہی دوسری مثال[3] تو وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف:۵۴) ’’تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا پھر وہ عرش پر مستوی (قائم) ہوا۔‘‘ اور اللہ کا ایک فرمان یہ ہے جس کی انہوں نے تاویل کی ہے: ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الرعد:۲) ’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو جنھیں تم دیکھتے ہو بغیر ستونوں کے بلند کیا پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ بعد والوں نے ان دونوں آیتوں اور اس طرح کی آیتوں میں مذکور استواء کی ’’استیلاء‘‘ (غلبے) سے تاویل کی ہے اور اس کے جواز میں شاعر کا یہ شعر پیش کرنا ان کے ہاں عام ہوگیا ہے:
Flag Counter