قَدِ اسْتَوٰی بِشْرٌ عَلَی الْعِرَاقِ
بِغَیْرِ سَیْفٍ وَ(لَا) دَمٍ مُھْرَاقِ
’’بشر (بن معمر) تلوار کے بغیر اور خون بہائے بغیر عراق پر غالب آگیا۔‘‘
وہ اس کے ابطال پر ائمہ تفسیر و حدیث ولغت کے متفقہ کلام سے لاعلم ہیں، بے شک عرش پر استواء سے مراد؛ اس (عرش) پر غالب اور بلند ہونا ہے، جیسا کہ آپ عنقریب ان کی طرف سے کتابوں میں ان کے اقوال مروی دیکھیں گے جو ثابت شدہ اسانید کے ساتھ ہر دور میں روایت ہوتے رہے، اور ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اس پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے، جیسے: امام اسحاق بن راہویہ (ترجمہ ۶۷) اور حافظ ابن عبد البر (ترجمہ ۱۵۱)، اس باب میں ان دونوں کے ذریعے حجت و دلیل لینا کافی ہے۔
اس کے باوجود؛ ہم علمائے خلف کو (ان میں سے چند کے سوا) دیکھتے رہے ہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے سلف کی آیت استواء وغیرہ اور دیگر آیات صفات اور ان کے متعلق احادیث کی تفسیر کے بارے میں مخالفت ہی کرتے رہے ہیں۔ بعض قارئین کرام اس کا سبب پوچھتے ہیں؟
تو میں کہتا ہوں: یہ ان کا اتباع سلف سے صرف اعراض ہی ہے، پھر ان کا آیات کریمہ میں مذکور استعلاء کے فہم میں غلطی کرنا ہے کہ وہ استعلاء وہ ہے جو مخلوق کے لائق ہے، جبکہ یہ بالاتفاق اللہ کے لیے تنزیہ واجب کے منافی ہے، تو انہوں نے اس فہم سے اپنی طرف سے اس ظن کی وجہ سے کہ وہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کرنے سے بچ جائیں گے جو کہ اس کی شان کے لائق نہیں اپنی پہلی تاویل کی طرف راہِ فرار اختیار کی۔
پھر ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے جوینی کے رسالے ’’النصیحۃ فی صفات الرب جل وعلا‘‘ سے کلام ذکر کیا، جو کہ اس بڑے مسئلے کے بارے میں ہے، انہوں نے (ص۲۸) کہا:
پھر انہوں نے اللہ کے مستوی اور اوپر ہونے کے بارے میں بعض آیات اور احادیث ذکر کیں، ان میں سے یہ معمولی سا حصہ ہے جو اس کتاب میں بیان ہوگا، پھر انہوں نے (ص۱۸۱) کہا:
’’جب ہم نے یہ جان لیا اور اس پر اعتقاد کرلیا، ہم نے تاویل کے شبہے، تعطیل کی گمراہی اور تشبیہ وتمثیل کی حماقت سے نجات حاصل کرلی، اور ہم نے اپنے رب سبحانہ کے علو، اس کے اوپر ہونے اور اس کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کو جس طرح اس کی عظمت و شان کے لائق ہے، ثابت کردیا، اور اس بارے میں حق واضح ہے، اور اس کے متعلق شرح صدر ہے، بے شک تحریف جو ہے صحیح عقول اس کا انکار کرتی ہیں، جیسے: استواء کی استیلاء کے ساتھ تحریف کرنا وغیرہ اور اس پر ڈٹ جانا جہالت اور بے بسی ہے…‘‘
|