اور ہمارے شیخ نے ’’مختصر العلو‘‘ کے مقدمے (ص۲۸) میں فرمایا:
پھر انہوں نے وہ سب بیان کرنا شروع کیا جس نے علمائے کلام کو استواء کی استیلاء کے ساتھ تاویل کرنے پر آمادہ کیا، انہوں نے (ص۱۸۱۔۱۸۳) فرمایا:
’’اللہ نے ان شیوخ کے بارے میں، جنھوں نے استواء کی استیلاء سے تاویل کی، میرے سینے کو کھول دیا اور… وہ میرا علم ہے کہ انہوں نے رب تعالیٰ کی صفات کو بس ایسے ہی سمجھا جیسے مخلوق کی شان کے لائق ہوتی ہیں، انہوں نے اللہ سے اس کی شان کے مطابق استواء سمجھا ہی نہیں، انہوں نے اسی لیے کلام کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا دیا اور اللہ نے اپنی ذات کو جن صفات سے متصف کیا انہوں نے انھیں معطل کردیا اور ان کا انکار کیا…‘‘
پھر ہمارے شیخ نے اسی مصدر (ص۳۰۔۳۱) میں فرمایا:
’’میں نے کہا: امام الجوینی رحمہ اللہ کے کلام سے وہ سبب واضح ہوا جس نے خلف… إلا من شاء اللہ … کو آیت استواء کی تفسیر میں سلف کی مخالفت پر آمادہ کیا اور وہ جو انہوں نے اس سے سمجھا… وہ غلط ہے جیسا کہ ہم نے عرض کیا … وہ استواء وہ ہے جو صرف مخلوق کے لائق ہے اور یہ تشبیہ ہے، تو انہوں نے صرف استیلاء کے ساتھ اپنی تاویل کے ذریعے اس کی نفی کی۔‘‘
اور حقیقی طور پر یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہ تاویل کے ذریعے جس چیز سے فرار ہوئے، وہ اسی کے ذریعے ایسی چیز میں مبتلا ہوئے جو کہ اس سے بہت زیادہ بری ہے اور درج ذیل امور کے ذریعے اس کا حصر ممکن ہے:
اوّل:… تعطیل، اور وہ اللہ کا اپنی مخلوق سے اوپر ہونا ہے اور یہ علو حقیقی ہے اور وہ اسی طرح ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے، کا انکار؛ اور وہ امام جوینی کے کلام سے واضح ہے۔
دوم :… اللہ کے لیے اس کی مخلوق میں اس شریک کی نسبت کرنا جو اس کے امر میں اس کی مخالفت کرتا ہو، کیونکہ لغوی طور پر استیلاء ایک دوسرے کے غلبے کے بعد ہی ہوگا، جیسا کہ آپ اسے امام لغوی ابن الاعرابی کے ’حالات زندگی‘ میں دیکھیں گے، وہ یہاں بھی ہے:
ایک آدمی نے ان کے سامنے وضاحت کرتے ہوئے کہا: استواء کا معنی ہے: ’’استولی‘‘ (غالب ہونا)، امام (ابن الاعرابی) نے فرمایا: خاموش رہ، عرب کسی آدمی کے لیے یوں نہیں کہتے: ’’وہ اس چیز پر غالب آیا حتیٰ کہ اس کے لیے اس میں مخالف ہو پس ان دونوں میں سے کون غالب آیا؟ کہا گیا: وہ غالب آیا اور اس کا تو کوئی مخالف نہیں۔‘‘ اس کی سند ان سے صحیح ہے، جیسا کہ میں نے اسے التعلیق (۲۱۰) میں بیان کیا ہے اور العلامہ نفطویہ النحوی نے ’’الرد علی الجھمیۃ‘‘ میں اس سے دلیل لی ہے، جیسا کہ آپ اسے ان کے تراجم (۱۱۹) میں
|