اور یہ اس کے منافی نہیں جو امام مالک کے حوالے سے گزرا ہے کہ دعا کے وقت حجرے کی طرف رخ کرنا مشروع نہیں، وہ حکایت جس میں بیان ہوا ہے کہ جب مالک سے منصور عباسی نے حجرے کی طرف رخ کرنے کے بارے میں دریافت کیا، تو انھوں نے اسے اس کا حکم دیا اور فرمایا: وہ تمہارا اور تمہارے باپ آدم کا وسیلہ ہے، یہ حکایت باطل ہے، اور وہ مالک پر جھوٹ باندھنا ہے، اس کی اسناد معروف نہیں، پھر وہ اس کے خلاف ہے جو ان کے اصحاب کی کتب میں ثقات کی اسانید سے ثابت ہے، جیسا کہ اسماعیل بن اسحاق القاضی ودیگر نے اسے ذکر کیا ہے۔
اس کے مثل جو انھوں نے ان سے ذکر کیا کہ ان سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو حجرے کی طرف رخ کرکے دیر تک کھڑے رہتے ہیں اور اپنے لیے دعا کرتے ہیں، تو مالک نے اس کی تردید کی اور ذکر کیا کہ وہ ان بدعات میں سے ہے جسے صحابہ نے کیا نہ تابعین نے اور انھوں نے فرمایا: ’’اس امت کے آخری فرد کی اصلاح اسی چیز سے ہوگی جس نے اس کے پہلے فرد کی اصلاح کی تھی۔‘‘[1]
۱۹۷: انبیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس قبولیت کی امید سے دعا کرنا: [2]
’’القاعدۃ الجلیلۃ‘‘ (۱۷، ۱۲۶۔۱۲۷)، ’’الرد علی البکری‘‘ (۲۸۔۵۷)، ’’الرد علی الأخنائی‘‘ (۲۴)، ’’الإختیارات العلمیۃ‘‘ (۵۰)، ’’الإغاثۃ‘‘ (۲۰۱۔۲۰۲۔۲۱۷)۔ ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۱/۱۹۷)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۸/۱۹۷)، ’’التعلیقات الحسان‘‘ (۸/۲۱۰)۔
۱۹۸: انبیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس نماز کا قصد کرنا:
’’الرد علی الأخنائی‘‘ (۱۲۴)، ’’الإقتضاء‘‘ (۱۳۹)، ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۳۱/۱۹۸)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۸/۱۹۸)۔
نماز و دعا کے لیے انبیاء اور صالحین کی قبروں کے قصد کے مسئلے کی تفصیل
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الثمر المستطاب‘‘ (۲/۵۸۳۔۵۸۴) میں فرمایا:
|