بلکہ اس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے، کیونکہ وہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے مترادف ہے، جبکہ ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ بیان کیا گیا، اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی ’’الفتاوی‘‘ (۴/۳۱۰) میں فرمایا: ’’بعض لوگ جو کسی ایسی جگہ نماز پڑھتے اور دعا کرنے کا قصد کرتے ہیں جس کے بارے میں مشہور ہوتا ہے کہ وہ کسی نبی کی قبر ہے یا کسی صحابی یا اس کے کسی قریبی کی قبر ہے یا اس شخص کا قبر کو اپنا بدن یا بدن کا کچھ حصہ لگانا یا قبر کے پاس والی کسی لکڑی وغیرہ کو جسم یا جسم کا کوئی حصہ لگانا، جیسے کوئی شخص جامع دمشق کے مشرقی بالائی حصے میں اس جگہ نماز پڑھنے اور دعا کرنے کا قصد کرتا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے: کہ وہ ھود کی قبر ہے جبکہ علماء کا موقف ہے کہ وہ معاویہ بن ابو سفیان کی قبر ہے یا اس مثالی لکڑی کے پاس نماز وغیرہ پڑھنا جس کے بارے میں مشہور ہے
کہ اس کے نیچے یحییٰ بن زکریا کا سر ہے، اور اس طرح کی دیگر جگہیں، پس ایسا شخص خطاکار، بدعتی اور سنت کا مخالف ہے، کیونکہ ایسی جگہوں پر نماز پڑھنا اور دعا کرنے کی امت کے سلف اور اس کے ائمہ میں سے کسی ایک کے ہاں کوئی خصوصیت نہیں، وہ ایسا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ وہ اس طرح کے کاموں سے منع کیا کرتے تھے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے اسباب سے منع کیا، اگرچہ وہ قبر سے اور اس کے ذریعے دعا کرنے کا قصد نہ کریں، تو پھر کس قدر برا ہوگا جب وہ اس کا قصد کریں؟‘‘ پھر انھوں نے فرمایا:
’’رہا کسی ایسی جگہ اس لیے دعا کرنا کہ وہاں کسی نبی یا کسی ولی کی قبر ہے، تو سلف امت اور اس کے ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ وہاں دعا کرنا کسی اور جگہ دعا کرنے سے افضل ہے، لیکن یہ اس ضمن میں سے ہے جسے اہل قبلہ نے نصاریٰ اور ان کے علاوہ دیگر مشرکین سے مشابہت کرتے ہوئے ایجاد کیا، اس کی اصل مشرکوں کے دین سے ہے نہ کہ اللہ کے مخلص بندوں کے دین سے، جیسے انھوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، اس امت کے سلف اور اس کے اماموں میں سے کسی ایک نے اسے مستحب قرار نہیں دیا، بلکہ اہل قبلہ میں سے کسی نے اسے ان یہود و نصاریٰ سے مشابہت اختیار کرتے ہوئے ایجاد کیا جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الآیات البینات‘‘ (ص۹۳) پر اپنی تعلیق میں فرمایا:
کسی قبر کے پاس دعا کرنے اور اس سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا قصد کرنا مشروع نہیں، بلکہ وہ ان شرکیات و وثنیات میں سے ہے جس کا بہت سے مسلمان شکار ہیں، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتب میں اس کی وضاحت کی ہے۔
۱۹۹: انبیاء اور صالحین کی قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا قصد کرنا:
’’الرد علی البکری‘‘ (۷۱)، ’’القاعدۃ الجلیلۃ‘‘ (۱۲۵۔۱۲۶)، ’’الإغاثۃ‘‘
|