کے بعد آپ کو بہت عجیب صورت حال دکھائی دے گی، اور آپ پرظاہر ہوجائے گا کہ علم حدیث، اس کے راویوں اوراس کے صحیح و ضعیف کے متعلق اس کے پاس کوئی علم نہیں، وہ تو ردی فروش/ ایندھن اکٹھا کرنے والا لکڑہارا ہے!
دوسري تنبیہ: …اس مذکورہ شیعہ نے کتاب کے حاشیے (ص ۱۶۶) میں وہی حدیث ان الفاظ سے بیان کی ہے: (( کَمَا قُوْتِلْتُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہِ۔))
’’جس طرح تم سے اس کی تنزیل پر لڑائی کی گئی۔‘‘
پس اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’قَاتَلْتُ‘‘ کو ’’قُوْتِلْتُمْ‘‘ سے بدل دیا، اس نے یہ صحابہ کرام پر الزام لگانے اور ان پر طعن کرنے کی خاطر کیا، اللہ اس کے استحقاق کے مطابق اس سے معاملہ کرے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفہ‘‘ (۵/۱۶۷) میں حدیث رقم (۲۱۴۴) کے تحت فرمایا:
عبدالحسین شیعی نے اس من گھڑت اضافے [1] سے ناجائز فائدہ حاصل کیا، پس اس نے اس کے ذریعے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعن کیا، اگر آپ چاہیں تو اس کی کتاب ’’المراجعات‘‘ (ص۲۴۸)۔ حدیث نمبر (۴۹۶۴)[2] کا مطالعہ کرلیں۔ تاکہ آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل کے بارے میں اس شیعہ کے موقف کے متعلق یقین ہو جائے۔
۴:… رافضہ اور غدیر (خم) [3] اور ’’المراجعات‘‘ کے مصنف اور خمینی کی ’’کشف الاسرار‘‘ میں افتراء پردازیاں:
ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۵/ ۶۴۴۔ ۶۴۶) میں حدیث رقم (۲۴۸۹) کے لیے ’’عِصْمَتُہُ مِنَ النَّاسِ‘‘ ’’آپ کا لوگوں سے بچاؤ۔‘‘ عنوان مقرر کیا ہے، اور اس کے بعد تخریج بیان کی ہے، ہم اسے اور رافضہ کے ’’المراجعات‘‘ کے مصنف موسوی اور خمینی جیسے بڑوں کے کذب و افترائات ذکر کریں گے۔ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی جاتی تھی حتی کہ یہ آیت: ﴿وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدۃ: ۶۷) ’’اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے اپنا سر مبارک باہر نکالا تو ان (حفاظتی دستے) سے فرمایا: لوگو! چلے جاؤ اللہ نے مجھے بچا لیا ہے۔‘‘
(ترمذی (۲/۱۷۵)، ابن جریر (۶:۱۹۹)، الحاکم (۲/۳۱۳) حارث بن عبید عن سعید الجریری، عن عبد اللہ بن
|