ھب، حل ص‘‘ رمز (ھب ص) میں تصحیف واقع ہوئی ہے، جبکہ درست (حب، ض) ہے جیسا کہ السیوطی کی ’’الجامع الکبیر‘‘ (۱/۲۲۳/۲) میں ہے۔ اسی تصحیف پر جس پر الشیعی نے آگاہی حاصل نہ کی، بنیاد بناتے ہوئے، اس (الشیعی) سے وہ نسبت آئی جس کی کوئی اصل نہیں: ’’البیہقی فی شعب الایمان‘‘ اور سعیدبن منصورفی سننہ‘‘!
اگر یہ کہا جائے کہ اس بارے میں الشیعی پرکوئی ملامت نہیں، کیونکہ اس نے اس رمز کی تفسیر بیان کی جسے اس نے کتاب میں دیکھا، جو کوئی کسی کتاب سے نقل کرتا ہے تو وہ اس بات کا ذمہ دار نہیں ہوتا کہ وہ اس کی نصوص اور اس کے رموز کے بارے میں تحقیق کرے۔
میں کہتا ہوں: یہ حق ہے، لیکن ’’الکنز‘‘ میں واقعہ رموز کی ترتیب میں عالم کو پتہ نہیں چلتا کہ اس میں تحریف ہے جب تک وہ مراجعت نہ کر لے، پس رمز (ھب، ک، حل، ص) اہل علم کے نزدیک غیرمعقول ہے اور قابل قبول نہیں۔ کیونکہ (ھب) بیہقی کے لیے رمز ہے وہ (ک)، جوکہ حاکم کے لیے رمز ہے شاگرد ہیں، پس ذکر کرنے میں کس طرح شاگرد کواس کے استاد پر مقدم کیا جا سکتا ہے؟ خاص طور پر جبکہ اس کے استاد کی کتاب (مستدرک حاکم) کا ’’شعب للبیہقی‘‘ کے خلاف ’’صحاح‘‘ میں شمارہوتا ہو، اور بے شک (ص) سعید بن منصور کے لیے رمز ہے، وہ ان کے لیے تمام رموز سے اعلیٰ ہے، پس اسے ان سے کس طرح موخر کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ ان پر مقدم ہے؟ ! لیکن درست وہی ہے جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے یعنی (ض)، اور وہ ’’المختارۃ‘‘ میں ضیاء المقدسی کے لیے رمز ہے، اگر اس شیعی کوائمہ حدیث کی سوانح حیات کے بارے میں معرفت ہوتی، تو وہ اسے اس طرح کی بے تکی باتوں سے بچانے کے لیے کافی ہوتی۔
اس پر اضافہ کر لیں کہ اس نے (ع) کی ’’ابویعلی فی السنن‘‘ سے تفسیر کی ہے! حالانکہ وہ تو ابویعلی فی ’’المسند‘‘ ہے، اور ابتدائی طالب علم جانتے ہیں کہ ابویعلی کی ’’کتاب السنن‘‘ نہیں ہے، اور اس (الشیعی) کی اس جیسی اور بھی عجیب و غریب باتیں ہیں، جیسا کہ اس نے ایک حدیث میں کہا: ’’جو نوح کو ان کے عزم میں دیکھنا چاہے…‘‘
’’امام بیہقی نے اسے اپنی ’’صحیح‘‘ میں اور امام احمد نے اپنی ’’مسند‘‘ میں روایت کیا‘‘!
امام بیہقی کی کتاب الصحیح ہے نہ امام احمد نے اسے اپنی ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے، بلکہ وہ موضوع حدیث ہے جیسا کہ میں نے اس کی دوسری کتاب میں رقم (۴۹۰۳) کے تحت تحقیق کی ہے، میں نے اس میں بہت سی ان ضعیف اور موضوع احادیث کی تخریج کی ہے جن سے اس مذکورہ شیعہ نے علی رضی اللہ عنہ کی ولایت اور ان کی عصمت کے بارے میں اہل السنن کے خلاف دلیل لی ہے، لہٰذا (۴۸۸۲۔۴۹۰۷) احادیث کا مطالعہ کریں تو اس
|