باعث بنتی ہے جو کہ واجب ہوتے ہیں، اس کا کئی بار اتفاق ہوا ہے۔ … اسی طرح میرے علاوہ کسی اور کو بھی … کہ میں نے ان میں سے کسی کو سلام کیا تو اس نے اس کے اشارے کے ساتھ مجھے جواب دیا! اور زبان سے سلام کا جواب نہ دیا! اس بدعت کے ان گنت مفاسد ہیں، شاعر نے کتنی خوب صورت بات کی ہے^
وَکُلُّ خَیْرٍ فِیْ اتِّبَاعِ مَنْ سَلَفْ
وَ کُلُّ شَرٍّ فِیْ ابْتِدَاعِ مَنْ خَلَفْ
’’سلف کی اتباع میں ساری خیر ہے۔ خلف کی ابتداع (بدعت سازی) میں ساری شر ہے۔‘‘
قاسمی رحمہ اللہ نے ’’اصلاح المساجد‘‘ (ص۲۴۴) میں بیان کیا:
’’…بسا اوقات ان میں سے کوئی اپنے کندھے پر مصلیٰ (جائے نماز) رکھ کر دکھاوا کرتا ہے اور اپنے ہاتھ میں تسبیح ظاہر کر کے دکھاوا کرتا ہے اور اسے دین و نماز کا شعار بنا کر دکھاوا کرتا ہے، جبکہ نقل متواتر سے معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا یہ شعار نہ تھا، وہ اپنی انگلیوں پر تسبیح کا شمار کیا کرتے تھے، کبھی کبھار ان میں سے کسی نے کنکریوں پر یا گٹھلیوں پر تسبیح شمار کی…‘‘
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’اصلاح المساجد‘‘ (ص۲۴۴) کے حاشیے میں قاسمی کے کلام کے آخری جملے پر تعلیقًا بیان کیا، اس کی نص یہ ہے:
’’یہ (کنکریوں یا گٹھلیوں پر تسبیح شمار کرنا) کسی ایک صحابی سے ثابت نہیں۔ ’’التعقیب الحثیث‘‘ پر ہماری طرف سے تردید دیکھیں۔‘‘
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر صحیح مسلم‘‘ رقم (۱۹۰۲) کے حاشیے میں فرمایا:
…اور اسی طرح ہر حدیث جس میں کنکریوں یا گٹھلیوں پرتسبیح کا ذکر ہے، وہ ثابت نہیں، دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں پر تسبیح کرنا مسنون ہے، میں نے اس سب کو اپنے رسالے ’’الرد علی التعقیب الحثیث‘‘ میں ثابت کیا ہے۔‘‘[1]
٭گردن میں تسبیح لٹکانے کو جائز قراردینے والے کی تردید: [2]
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۱۸۹) کی حدیث رقم (۸۳) میں بیان کیا:
معاصر گمراہوں میں سے جس نے تسبیح کی سنت میں تالیف کیا وہ اس سے جاہل رہا یا اس نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا، اس نے اس میں اپنے شیخ عبداللہ غماری کی تقلید کی جس نے ان حقائق سے تجاہل برتا اس نے اس
|