اس لیے ہر ولی کے لیے، اس کی طرف سے صادرہونے والے ہر قول یا عمل میں شرع کی پابندی ضروری ہے، اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں وہ مخالفت میں مبتلا نہ ہو جائے، ورنہ وہ اس (مخالفت کی) وجہ سے اس ولایت سے خارج ہو جائے گا جس جامع وصف کے ساتھ اللہ نے اس (ولایت) کو متصف کیا ہے، فرمایا: ﴿اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (یونس:۶۲۔۶۳)
’’سن لو! اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے، جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔‘‘
کسی نے خوب کہا:
اِذَا رَأَیْتَ شَخْصًا قَدْ یَطِیْرُ
وَ فَوْقَ مَائِ الْبَحْرِ قَدْ یَسِیْرُ
وَ لَمْ یَقْفِ عَلَی حُدُودِ الشَّرْعِ
فَإِنَّہُ مُسْتَدْرَجٌ وَ بِدْعِیُّ
’’جب تم کسی شخص کو اڑتے ہوئے یا سمندر کی سطح (پانی) پر چلتے ہوئے دیکھو اور وہ شرع کی حدود کی پابندی نہ کرے، تو وہ بے شک ڈھیل دیا جانے والا، ہلاکت میں پڑنے والا اور بدعتی ہے۔‘‘
۲:… تصوف اور تعبد (عبادت کرنے) کے لیے انقطاع اور ترک اکتساب:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب‘‘ (۲/۶۴) میں حدیث رقم (۱۲۱۶) کے تحت بیان کیا:’’اللہ کی راہ میں ایک دن مورچہ بند رہنا دنیا اور اس پر موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے…‘‘ مسلمانوں کا پہرہ دینے کے لیے کفار اور مسلمانوں کے درمیان جگہ پر جم کر بیٹھنا رباط کہلاتا ہے۔
میں(البانی) نے کہا: اس وابستگی، تعبد کے لیے ان کا انقطاع، ترکِاکتساب اور ان کے خیال کے مطابق مسبب الاسباب سبحانہ و تعالیٰ کی کفالت پر ان کی طرف سے اکتفا کرنے کا اس رباط سے کوئی تعلق نہیں۔ (اسباب کو ترک کیسے کیا جاسکتا ہے۔) جبکہ وہ فرماتا ہے: ﴿فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ﴾ (الجمعۃ:۱۰) ’’جب نماز ہو جائے تو زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم میں سے کوئی مسجد میں بیٹھ کر یوں نہ کہے: اللہ مجھے رزق دے گا، تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونے اور چاندی کی بارش نہیں ہوتی۔‘‘
۳:… صوفیاء اور ریاضت و نفس کی تربیت کے لے انفرادی طور پر جنگل کی طرف نکل جانا:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۱۳۲) میں حدیث رقم (۶۲) ’’ایک سوار ایک شیطان ہے،دو سوار دو شیطان ہیں۔ جبکہ تین ایک قافلہ ہے۔‘‘ کے تحت بیان کیا:
|