مملوء سے بھرپور ہے جو حواس خمسہ کی پہنچ سے دور ہیں) ص ۲۳ پر ایک قصہ پڑھا: ’’نوجوان دو شیزہ اپنے منگیتر سے شادی کے لیے جنوبی افریقہ جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ تین ہفتوں کی تلخ لڑائی کے بعد اپنی منگنی توڑ دیتی ہے، اور وہ لڑکی اپنے کمرے میں مستقل پریشان کن کیفیت پیدا کیے رکھتی ہے، وہ اس کے مختلف کونوں میں مسلسل چیختی پکارتی رہتی ہے: ہائے امی جان… میں کیا کروں؟‘‘ لیکن اس (لڑکی) نے کہا سن لو کہ اس کے ساتھ جو واقعہ ہوا ہے اس سے اس کی ماں پریشان ہوئی، چار ہفتے بعد اس (ماں) کی طرف سے وہ ایک خط موصول کرتی ہے، اس میں تحریر تھا: ’’کیا ہوا؟ میں اس وقت سیڑھیوں سے اتر رہی تھی جس وقت میں نے تمہیں بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا: ’’ہائے امی جان!… میں کیا کروں؟‘‘ اس خط پر بھی وہی تاریخ درج تھی جس تاریخ کو وہ لڑکی کمرے کے اطراف میں چیخ و پکار کر رہی تھی۔‘‘
اس کلام میں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس حوالہ سے اور بھی مثالیں ہیں، اس سے جو آج ’’التخاطر‘‘ (خیال) اور ’’الاستشفاف‘‘ (کشف یا پارکی چیز دیکھنے) کے نام کے تحت آتے ہیں، اور وہ ’’دوسری بصیرت‘‘ کے نام سے معروف ہے، ہم نے جو ذکر کیا ہم نے اسی پر اکتفا کیا ہے، کیونکہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے قصے سے مشابہت کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریبی مثال ہے، میں نے بعض مسلمانوں کو اس گمان کے پیش نظر اس واقعے کا انکار کرتے ہوئے سنا کہ اسے عقل تسلیم نہیں کرتی یا اس سے عمرکی طرف علم غیب منسوب کرنا لازم آتا ہے، جبکہ دوسری طرف ان کے علاوہ، جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا، ہم صوفیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ غیب پر اولیاء کے مطلع ہونے کے امکان کے اثبات کے لیے اس واقعہ کو ناجائز استعمال کرتے ہیں، یہ سب (دونوں نظریات والے) غلطی پر ہیں۔
وہ قصہ صحیح ثابت ہے، [1] اور وہ ایک کرامت ہے جس کے ذریعے اللہ نے عمر کو عزت بخشی، اس طرح کہ اللہ نے ان کے ذریعے مسلمانوں کے لشکر کو قیدی بننے یا ہلاک ہونے سے بچا لیا، لیکن اس میں وہ نہیں جو علم غیب جاننے کے بارے میں تصوف والے زعم رکھتے ہیں، وہ تو (عرف شرع میں) الہام کی قبیل سے ہے یا عصر حاضر کے عرف میں ’’تخاطر‘‘ (خیال) ہے، جو کہ (غلطی سے) محفوظ نہیں، کبھی صحیح بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ اس واقعہ میں ہے، اور کبھی غلط بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ وہ انسانوں میں اکثر پایا جاتا ہے۔
|