پس جو بیان ہو چکا [1] اس سے واضح ہوا کہ ان طرق سے کوئی چیز صحیح ثابت نہیں ہوتی، صرف ابن عجلان کے طریق سے صحیح ہے، اور اس میں بھی صرف عمر کا اعلان ہے: ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ اور لشکر کا ان کے اعلان کو سننا، اور اس سبب سے ان کا غالب آنا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ اعلان عمر کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام تھا، اور ان کے حوالے سے یہ کوئی عجیب بھی نہیں، کیونکہ وہ ’’محدث‘‘ (جس کا گمان صحیح ہو، جسے الہام ہوتا ہو) ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن اس میں یہ نہیں کہ عمر کے لیے لشکر کا حال منکشف ہوا تھا، اور یہ کہ انہوں نے ان (لشکر والوں) کو آنکھ کے دیکھنے کی طرح دیکھا تھا، پس بعض صوفیہ کا اس سے ان کے اپنے زعم کے مطابق اولیاء کے لیے کشف پر، اور جو کچھ دلوں میں ہے اس پر مطلع ہونے کے امکان پر استدلال کرنا سب سے بڑا باطل (نظریہ) ہے، کیوں نہ ہو جبکہ یہ رب العالمین کی صفات میں سے ہے، وہ اکیلا ہی غیب جانتا ہے اور سینوں کے بھیدوں سے وہی واقف ہے، کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ یہ لوگ اسی زعم باطل کا کس طرح تصور کرتے ہیں جبکہ اللہ عزوجل اپنی کتاب میں فرماتا ہے:
﴿عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہِ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ﴾ (الجن: ۲۶۔۲۷)
’’وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیبی علوم پر کسی کو مطلع نہیں کرتا،ہاں اپنے رسول کو جس کو وہ منتخب کر لے۔‘‘
تو کیا وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء رسول ہیں کہ یوں کہنا صحیح ہو: کہ وہ اللہ کی طرف سے اطلاع پانے پر غیب جانتے ہیں! (اے اللہ!) تو پاک ہے یہ بہتان عظیم ہے! اگر عمر رضی اللہ عنہ کے واقعے کا نام کشف رکھنا درست ہو، تو وہ خارق عادت امور میں سے ہے، جو کبھی کافر سے بھی واقع ہو سکتے ہیں، جس شخص سے اس کی مثل کوئی واقعہ صادر ہو تو محض اس واقعے کا صدور اس شخص کے ایمان پر دلالت نہیں کرتا چہ جائیکہ وہ اس کی ولایت پر دلالت کرتا ہو، اسی لیے علماء بیان کرتے ہیں کہ اگر خارق عادت واقعہ کسی مسلمان سے صادر ہو تو وہ کرامت ہے، بصورت دیگر وہ استدراج (ڈھیل) ہے، اور یہ اس پر ان خوارق عادت امور کی مثال بیان کرتے ہیں جو آخری دور میں بڑے دجال کے ہاتھ پر واقع ہوں گے جیسا کہ وہ آسمان سے کہے گا بارش برسا! تو وہ بارش برسائے گا، زمین سے کہے گا: اپنی نباتات اگا، تو وہ نباتات اگائے گی، اور اس کے علاوہ وہ امور جو احادیث صحیحہ میں بیان ہوئے ہیں۔
اس کے متعلق نئی مثالوں میں سے وہ مثال ہے جسے میں نے آج ’’المختار‘‘ رسالے سے چھٹے سال کے اگست کے شمارے میں بعنوان ’’ ھذا العالم المملوء بالألغاز وراء الحواس الخمس‘‘ (یہ جہاں ایسے
|