۴: بہت زیادہ عدد محصور کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا [1] جسے الشارع الحکیم نے بیان نہیں کیا:
ہمارے شیخ نے ’’الرد علی الحبشی‘‘ (ص۴۷) میں بیان کیا:
’’کسی ایسے مخصوص عدد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا جسے الشارع الحکیم نے بیان نہیں کیا بدعت ہے۔‘‘
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۱۹۸) کی حدیث رقم (۸۳) کے تحت ذکر کے لیے اور اس کی گنتی کے لیے تسبیح کو سنت قرار دینے والوں کا مناقشہ اور ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
کبھی کوئی کہہ سکتا ہے: انگلیوں پر شمار کرنا جیسا کہ سنت میں وارد ہے ان (انگلیوں) کے ساتھ عدد کو’’ جبکہ وہ زیادہ ہو‘‘ گننا ممکن نہیں!
جواب: یہ اشکال ایک دوسری بدعت سے آیا ہے، وہ ہے اللہ کا بہت زیادہ عدد محصور میں ذکر کرنا، جسے الشارع الحکیم نے بیان نہیں کیا، تو اس نے ایک دوسری بدعت کا مطالبہ کیا اور وہ ہے ’’تسبیح‘‘، بے شک سنت صحیحہ میں جو زیادہ سے زیادہ عدد آیا ہے جو میرے نزدیک ثابت ہے وہ سو ہے، اور اسے انگلیوں پر سہولت کے ساتھ گننا ایسے شخص کے لیے ممکن ہے جس کی یہ عادت ہو۔
رہی حدیث: ’’جس نے دن میں دو سو مرتبہ: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ…‘‘ کہا، اس سے مراد: سو مرتبہ جب صبح کرے، اور سو مرتبہ جب شام کرے، جیسا کہ وہ بعض ثابت شدہ روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے، [2] اور ’’الصحیحۃ‘‘ (۲۷۶۲) میں اس کا بیان ہے۔
رہا وہ جسے ابن ابی شیبہ (۲/۳۹۱) نے وقاء عن سعید بن جبیر سے روایت کیا، انہوں نے کہا: عمر بن خطاب نے ایک آدمی کو اپنی تسبیحات کے ساتھ تسبیح شمار کرتے ہوئے دیکھا، تو عمر نے فرمایا: اس سے یوں کہنا کافی ہے کہ وہ کہے: سبحان اللہ…، وہ کئی وجوہ سے منکر ہے! ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس کے اور سعید کے درمیان انقطاع ہے، نیز وقاء کا ضعف ہے۔ اور وہ ابن ایاس لیّن الحدیث ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الکلم الطیب‘‘ (ص۶۲) حدیث رقم (۶) کی تخریج میں اور ’’صحیح الکلم‘‘ (ص۳۰) میں بیان کیا، اور اس کی نص یہ ہے: ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد…‘‘ انہوں نے اس کے آخری حصے پر تعلیقًا کہا: ’’…اس نے جو کہا اس سے افضل کسی نے عمل نہ کیا مگر وہ آدمی جس نے اس سے زیادہ عمل(ذکر) کیا۔‘‘
|